Contact Form

Name

Email *

Message *

Saturday 23 December 2023

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ

صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے اور وقتِ حاکم سے ناراضی کا سامنا کرنا عام۔ 


لیکن فسادات کے بعد حادثاتی طورپر بننے والی کسی قوم کی نماہندہ صحافی سے اس سے زیادہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ غریدہ فاروقی کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ کاش کہ خریدہ آنٹی! لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین کے اس مارچ کو شروع سے کور کررہی ہوتی تو انھیں یہ سبق ملتا کہ سرحدیں تہذیبوں کو مٹا نہیں سکتی۔ جس طرح اس مارچ کا استقبال ڈی جی خان اور تونسہ میں کیا گیا وہ ایک مشترکہ درد کی عکاسی تھا۔ اسی طرح کے پی کے کی سرزمین پر ڈی آئی خان کے غیور پشتونوں نے بھی اس مارچ کو ایسے ویلکم کیا کہ مظلومین کے کاروان کو حوصلہ ملا مگر بلوچستان کی خون پر بننے اور پھلنے والا اسلام آباد نے یزیدیت کو بھی شرمندہ کیا۔ اہل کوفہ سے ہمیشہ یہ گِلہ کیا جاتا ہے اور یہ ٹرم (اہل کوفہ) اُن اقوام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو خاموش تماشاہی ہوتے ہیں، مگر اہل کوفہ کو بھی یہ فخر ہوگا کہ اُن کے بیچ کوئی خریدہ فاروقی نہیں تھا۔ 


آنٹی خریدہ فاروقی! کے سوالات دیکھ کر یہی پتہ لگتا ہے کہ اُنکی صحافتی تربیت گھر میں بیھٹے چند انڈین چینلز کو دیکھ کر ہوئی ہے جہاں اینکر گلہ پاڑ کر اپنے من پسند سوالات کے جوابات کے لیے چلّا رہی ہوتی ہے۔ خریدہ کی برگر صحافت کسی کینٹ کے لیے تو ہوگا مگر انھیں یہ بنیادی اخلاقیات کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہاں کون سا سوال کس سے پوچھنا چاہیے۔


خریدہ آنٹی! آپ کا یہ انداز اور یہ سوالات آپ کے اُس سوچھ کی عکاسی کرتے ہیں جس میں آپ نے مان لیا ہے کہ آپ کی فوج الگ ہے اور اِن در بہ در بلوچوں کی فوج الگ، آپ اپنے فالج زدہ ذہن میں یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ آپ کی ریاست الگ ہے اور بلوچ کی الگ۔ آپ یہ ثابت کرنے کے لیے کس قدر ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں کہ ریاست بلوچوں کو لاپتہ کرکے غلطی کر رہی ہے اور بلوچوں کی ریاست پنجابی مزدوروں کو مار کر ظلم۔ آپ اپنے طورپر کسی کینٹ والے سے خریدے گئے اعلی و عظیم سوالات کر رہے ہونگے مگر دنیا آپ کی سوچ پر ہنس رہی ہوگی کہ کس طرح آپ نے خود سے یہ معیار بنا لیا ہے کہ پاکستانی فوج بلوچوں کو لاپتہ کرنے اور بلوچ نسل کُشی کررہی ہے تو بلوچوں کے فوج بی ایل اے و بی ایل ایف وغیرہ بھی تو بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو قتل کر رہے ہیں۔۔۔۔


آپ کے پلانٹڈ اور جی حضوری والے سوالات صحافت کے لیے بدنما داغ تو ہیں ہی مگر کس طرح اس ریاست کو مزید شرمندہ کر رہے ہیں، یہ آپ کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ آپ نے کیسے دو الگ ریاست بنا لیے، آپ ذہنی طورپر یہ مان چُکے ہیں کہ بلوچ آپ سے الگ ہیں۔ آپ کی جسٹیفکشن یہ ثابت کر رہیے ہیں کہ کیسے آپ اس ظلم کو برابری کی بنیاد پر تقسیم و تسلیم کرچکے ہیں کہ ریاست بلوچ نسل کُشی کررہی ہے تو بی ایل اے و بی یل ایف وغیرہ بھی تو بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو مار رہے ہیں۔ آپ کی سوچ جبری گمشدگیوں کو جائز مان چکی ہے۔ آپ کی اِس سوچ نے بلوچستان سے خریدے گئے سرفراز بھٹی اور دوسرے آپ کے لوگوں بھی شرمندہ کیا جو اسی لیے بنائے گئے تھے کہ آپ یہ سوالات اُن سے پوچھیں اور وہ آپ کو آپ کا من پسند جواب دیں۔ پھر سوال بھی آپ کا، جواب بھی آپ کا اور سوال و جواب کرنے والے بھی آپ کے، بلکیں باپ کے۔ 


ڈاکٹر ماہ رنگ اور یہ بلوچ مائیں، بچیاں اور بوڈھے لاپتہ افراد کے لواحقین سے بحیثیت کیا آپ یہ سوال پوچ رہی ہیں؟ بحیثیت بلوچ؟ کہ میں اپنے فوج کی غلطیان مان رہی ہوں آپ اپنے مان لیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو آپ کی سوچ کو کتنے تھوپوں کی سلامی دی جائے؟ پھر تو آپ اس سوال کے لیے جواز بنارہی ہیں کہ آپ کی فوج بلوچستان میں کیا کررہی ہے؟ آپ نے توڑی دیر کی چاپلوسی میں ریاست اور اُن کے اداروں کی ”میوزک“ بجا دی۔  

اور اگر یہ لاپتہ افراد کے لواحقین آپ کے من پسند جوابات دے بھی دیں جس سے آپ کی تنخواہ میں اضافہ ہو، لیکن اگر یہ کہہ دیں کہ چلیں آپ بھی ایک لانگ مارچ کریں یہ بلوچ عورتیں آپ کی سربراہی میں اسلام آباد سے کوئٹہ پیدل مارچ کرینگی، آپ کر پائینگی؟ یہ بلوچ عورتیں تو عادی ہیں آپ اسلام آباد کی آسائشوں میں پرورش پانے والی برگر آنٹی یہ کرپائینگی؟ 


آپ کی سوچ پر تو کئی گھنٹوں کی خاموشی بھی بے کار ہے مگر ہاں آپ کی چاپلوسی، جہالت اور اس حرکت پر یہ بنتا ہے کہ واجہ محمد حنیف کا واپس کیا ہوا صدارتی ایوارڈ آپ کو دیا جائے۔۔۔

Monday 25 January 2021

بی ایل کا کمانڈر ماردیا گیا ہے، اس لیئے حالات خراب ہیں

بی ایل کا کمانڈر لڑکی ماردیا گیا ہے، اس لیئے حالات خراب ہیں


ویران سڑکیں، سخت پہرے اور انتظار میں کھڑی آنکھیں اور ان سب سے زیادہ ایک نفرت، یہ نفرت عمومی نفرت سے جدا ہے کیونکہ عموما  نفرت جبر، ظلم و بربریت کے خلاف ہوتی ہے لیکن یہ نفرت اس خوف کے خلاف ہے جس کے سائے میں یہ نظام اپنے آخری سانسوں کو دن بہ دن بڑھاتا جارہا ہے۔ 


سوچھا کہ یہ تحریر ان سائیٹس کے لیئے لکھ کر بیھج دوں جہاں پہلے بھی میرے بلاگز اور تحریر کچھ نا کچھ پبلش ہوتے رہے ہیں لیکن بحیثیت ایک بلوچ صحافت کے طالب علم میں شروع دن سے یہ جانتا ہوں کہ اردو آن لائن میڈیا میں جتنے بھی صحافتی میدان کے نام ہوں انکی مثال اس نظام کے ان مُلاؤں، انسانی حقوق کے کارکن و فیمینسٹ اور جمہوریت کے دعویداروں کے جیسا ہے جو صرف ٹائم پاس کرتے ہیں اور بلوچستان سے متعلق کوئی بھی خبر، تحریر اور کچھ بھی ان کے اس نظام میں پروان چڑھے سوچ میں ان کے لیئے محظ چند الفاظ ہونگے۔ 


کاروان ءِ شہید کریمہ کی انتظار میں گوادر زیرو پوائنٹ سے لیکر کلاچ، دشت اور ڈی بلوچ تک کئی لوگ ڈر اور خوف سے نفرت کرتے ہوئے کھڑے تھے مگر اس سے کئی گنا زیادہ خوف  ریاستی مشینری میں دیکھا جارہا تھا جو آنکھیں پاڑ کر اپنے گزشتہ ستر سالوں سے کیئے گئے آقاؤں کے جبر و خوف کے نظام کو ہر طرف پھیلاتے گزر رہے تھے اور شاید ان آقاؤں کو دل ہی دل میں بدعائیں بھی دے رہے تھے جن کی منصوبہ بندیوں کی وجہ انھیں بھی آج ایک لاش کو اغواہ کرکے راستے میں چرواہوں، طالب علموں ، خواتین و بچوں سے چھپا چھپا کر لے جانا پڑ رہا تھا اور جہاں اپنی طاقت کے خوف کو شکست کردہ دیکھ کر بچوں اور نوجوانوں کی صورت جنھیں دور سے موقع ملتا اور وہ سلامی لیئے حاضر ہوتے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لاہور کی میڈیا، پنڈی کی دیواریں اور اسلام آباد کی ایوانوں کو اس ایک لاش سے اس قدر خطرح ہے کہ اسے اپنے ایٹم بم سے زیادہ اہم سمجھ کر چھپا رہے ہیں۔


کاروان میں شامل چند گاڑیوں کو جب زبردستی روک کر واپس کیا گیا تو ایک بچارہ سپاہی کہتا ہے " تمھیں پتہ ہے بی ایل اے کا کمانڈر لڑکی مار دیا گیا ہے، حالات بہت خراب ہیں اس لیئے اس طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیں، آگے کرنل صاحب کھڑے ہیں"


پتہ نہیں اس کرنل صاحب نے کیا سوچھ کر یہ حکم دیا تھا مگر اس سے پہلے والے کئی اسی عہدے پر رہنے والوں کی وجہ سے اس کی بلیڈ پریشر اور نفسیات پر بہت برے اثرات پڑے تھے جس نے سخت ترین کرفیو، کمیونکیشن کے تمام طریقے مکمل بند کردیئے تھے۔ کیونکہ اس سے پہلے کریمہ بلوچ ایک عام بلوچ طالب علم کے لیئے صرف ایک طالب علم رہنماہ تھی جو پدر شاہی قدامت پسند کہلانے والی بلوچ سماج، پیداگیر اور موقع پرست سرداروں اور چند دیگر پارلیمانی سوداگروں کے لیئے ایک مزاحمت کی علامت تھی مگر ریاست اور ان کے منصوبہ سازوں کے لیئے ان کی لاش اس قدر خوف کی علامت ہے یہ ان کی موت نے عیاں کردیا۔


رات گئے تک سخت سردی میں کھلے آسمان تلے بیھٹے بچے و خواتین اور راہ گیر جو اپنے اپنے گھروں تک جانے کے لیئے ڈی بلوچ چوک تربت میں راستے کھلنے کا انتظار کررہے ہیں۔ ان کی نسلوں میں سے چند ایک کل کو شاید ہی کسی کالے شیشوں والے گاڑی میں بیٹھ کر چند پیسوں اور پروٹوکول کے لیئے ناجائز طریقے سے محب وطن کہلائیں مگر یہ ان پڑھ مائیں، بچے و بوڑھے بھی جب کرفیو کھلنے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹینگی تو کریمہ کی موت اور نظام کی جبر کو نہیں بھولینگی۔ اب اس نظام سے زیادہ یہ لوگ اپنے اندر کے خوف سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ جسے چند پیسوں کا تنخواہ دار اپنے ملازمت تک تو شاید کیسے بھی برقرار رکھ سکے مگر اپنی نسلوں کو اس عارضی منصوبہ بندی سے تباہ کردے گا۔۔۔۔ کیونکہ جب وہ عام سپاہی کل کو گھر لوٹے گا یا انکے بچے انھیں بتائینگے کہ ایک لڑکی کی میت کے وقت    ایسا کیا گیا تھا تو ۔۔۔۔۔۔

@JavedGwadari

Saturday 26 December 2020

کریمہ بلوچ مزاحمت کی علامت


کریمہ بلوچ کی موت بلوچستان کے لیئے سانحہ: وہ سرداری نظام اور پدرشاہی معاشرے کے خلاف کھڑی ہوئیں

 


پیر کی رات دیر گئے سوشل میڈیا پر ایک خبر بلوچستان کو افسردہ کرگئی۔ یہ خبر ایسی تھی کہ جسے پڑھ اور دیکھ کر بھی کئی لوگوں نے اس لیئے دیکھی ان دیکھی کرنے کی کوشش کی کہ شاید یہ خبر جھوٹی ہو۔ بلوچستان سے سماجی کارکن جلیلہ حیدر سمیت کئی دوسرے بلوچ صحافی، طالب علم اور سماجی و انسانی حقوق کے کارکن جیسے کچھ کہہ بھی رہے تھے اور کچھ چھپا بھی رہے تھے ۔ لیکن رات کے بچے کھچے چند گھنٹے پتہ نہیں کیسے گزرے کہ صبح ہوئی تو حسب معمول بلکہ فورا اور دانستہ طورپر سوشل میڈیا کھول کر دیکھنا چاہا کہ ہوسکتا ہے رات کی بات ایک خواب ہی ہو؟ مگر سوشل میڈیا کی  تمام سائٹس 
پر سیاہی چھائی ہوئی تھی۔
گوادر میں کریمہ بلوچ کے لیئے احتجاج، شمعیں روشن

بلوچستان اور دنیا بھر کے بلوچوں کے علاوہ کئی صارفین کی پروفائل تصاویر سیاہ تھیں۔ اور خبر ایک لاپتہ شخص کی ملی ہوئی لاش کی لگی ہوئی تھی۔  بلوچستان اور بلوچوں کے لیئے لاپتہ کا لفظ نیا  ہے اور نہ ہی لاش کی خبر۔ کیونکہ بلوچستان کی ایک ایک قبر میں کئی افراد کی لاشیں دفن ہوئیں ملتی ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور طلبہ تنظیموں سے تعلق رکھنے والے یا غیر بلوچوں کی لاشیں بھی ملتی رہی ہیں لیکن اس دفعہ بلوچستان کی طرز کا یہ واقعہ سات سمندر پار انسانی حقوق کے حوالے سے مہذب مغربی دنیا کے حصے ملک کینیڈا سے تھا۔ اور خبر یہ تھی کہ بلوچ انسانی حقوق کی کارکن اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیش کی سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی لاش دو دن لاپتہ رہنے کے بعد ٹورنٹو کے قریب ایک جھیل کنارے سے ملی ہے۔
اس سے پہلے ایک بلوچ صحافی ساجد بلوچ کی لاش مئی میں ایک مہینہ لاپتہ ہونے کے بعد سویڈن سے ملی تھی۔ ان دونوں واقعات کے بعد بلوچستان کے سیاسی، صحافتی اور انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم سرکلز میں ایک سوال شدت کے ساتھ پوچھا جارہا ہے کہ اب بلوچ جائیں تو جائیں کہاں؟ اور مغربی دنیا کے دعووں اور انسانی حقوق کے حوالے سے انتظامات پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور ایک ایسا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے کہ جیسے بلوچستان کے ہر شخص کے لیئے پاؤس کا بٹن دب چکا ہے۔
کریمہ بلوچ کی یہ خبر بھی حسب معمول پاکستانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بلوچستان سے تعلق کی وجہ سے چل نہ سکی مگر انٹرنیشنل اور سوشل میڈیا پر ضرور زیر بحث رہی اور اب بھی خبر بنی ہوئی ہے۔ کریمہ بلوچ کی اس طرح کی موت پر کئی سوالات، شکوک شبات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن بلوچستان میں ان حالات میں کریمہ بلوچ کے لیئے اس قدر احتجاج ، افسردگی، اور غم و پریشانی کا اظہار اور وہ بھی کھل کر اظہار کرنے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں۔۔۔۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔
کریمہ نے اپنے لیئے جو راستہ چنا تھا وہ بلوچ طالب علم سیاست کے لیئے کوئی نئی اور عجیب بات نہیں تھی۔ کیونکہ بلوچستان کے کئی سیاسی طالب علم کارکن لاپتہ ہیں تو بہت ساروں کی مسخ شدہ لاشیں بھی ملی ہیں۔ بقول کریمہ بلوچ کی والدہ کے کہ جب انھیں بھی کریمہ کی موت کی خبر دی گئی تو وہ بھی نہیں روئیں کیونکہ انھیں بھی کریمہ کی سیاست اور اپنے لیئے چنے ہوئی راستے کا علم تھا۔ لیکن اس ماحول میں ایک عام بلوچ کے لیئے کریمہ کی یہ موت اس قدر دردناک کیسے ہوئی؟ اور کیونکر ہر وہ بلوچ جو کسی سرکاری اعلی ملازمت پر فائز ہو یا عام طالب علم، سب یکساں غم میں مبتلا کیوں ہیں؟



اس کیوں کی وجہ بھی کریمہ کی طلبہ سیاست ہی ہے۔ کیونکہ کریمہ نہ صرف ایک ایسی سیاست کررہی تھی اور ایک ایسی تنظیم کی رکن تھیں جو نہ صرف ریاست کے لیئے کالعدم تھی بلکہ بلوچ سرداری، جاگیرداری، اشرافیہ و طبقاتی نظام کے خلاف ایک آواز تھی۔ وہ ایک قدامت پسند کہلانے والے بلوچ معاشرے میں اس وقت طلبہ سیاست کی سرگرم قیادت بنی جب بلوچ مرد بھی خوف کے سائے میں ایسی جرات نہ کرسکے۔

وہ بلوچ خواتین کے لیئے بیداری کی وجہ بنی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو اس وقت سنھبالے رکھا جب اس تنظیم کو ناں صرف ریاست کی طرف سے پابندیوں کا سامنا تھا بلکہ سرداروں، جاگیرداروں اور اشرافیہ کے لیئے بلوچ معاشرے میں سیاسی شعور اور برابری کی بات کرتی رہی۔ پدرشائی اور سرداری نظام کو للکارتی رہی اور لاپتہ بلوچوں کے لیئے آواز بلند کرتی رہی۔
جب بلوچستان میں طلبہ سیاست  شجر ممنوعہ قرار پایا تو وہ بلوچ طلبہ کی قیادت کرنے آگے آئی اور انھیں کسی سردار کے درباری یا کسی کے الیکشن مہم میں جھنڈے لگانے سے بچانے کے لیئے بلوچ قومی تحریک اور مظلوم اقوام کی حقوق کے لیئے متحرک کرنے کے لیئے کام کرتی رہی۔ اگر ریاست اور بلوچستان کے سرداروں کا گھٹ جوڑ، بلوچستان کے اکثریتی گُڈ سرداروں کی حکمرانی اور ریاست کی پشت پنائی بجائے ان سرداروں کی، آئین و قانون اور انصاف و انسانی حقوق کی آزادی پر ہوتی تو شاید کریمہ ملک چھوڑ کر دیار غیر میں سیاسی پناہ نہ لیتی۔


کریمہ کہ موت نہ صرف ان کے تنظیم اور خاندان کے لیئے افسوس ناک ہے بلکہ ہر ایک عام انسان کے لئے جو جاگیرداری، سرداری، مافیاز، اور عورت دشمن سماج کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اور خصوصا بلوچستان جیسے زمین کے لیئے تو یہ موت کربلا سے کم نہیں جہاں ایک عام بلوچ طالب علم کے لیئے پڑھ لکھنے کے باوجود بھی کسی سردار، میر، نواب یا کسی سوداگر کے تابع ہوکر زندگی گزارنا لازم ہو تاکہ حاصل کردہ علم کسی سرکاری ٹھیکہ یا پارٹی میں عہدے کے لیئے کام آسکے۔
بلوچستان واقعی ہی غم زدہ ہے کیونکہ نہ تو کریمہ کوئی سردار تھی نہ ہی سرکاری شخصیت۔ باوجود اس کے وہ ایک عام بلوچ طالبہ تھی جو عام بلوچوں کی کئی پابندیوں کی شکار طلبہ تنظیم کی رکن اور لیڈر کے حیثیت سے اندرون بلوچستان کے جاگیرداروں، سرداروں اور سرمایہ داروں کے لیئے خطرہ تھی بلکہ آئین و قانون کی مالک ریاست کے لیئے بھی کالعدم کا درجہ رکھتی تھیں۔
شکریہ نیا دور

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...