جاوید بلوچ
صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے اور وقتِ حاکم سے ناراضی کا سامنا کرنا عام۔
لیکن فسادات کے بعد حادثاتی طورپر بننے والی کسی قوم کی نماہندہ صحافی سے اس سے زیادہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ غریدہ فاروقی کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ کاش کہ خریدہ آنٹی! لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین کے اس مارچ کو شروع سے کور کررہی ہوتی تو انھیں یہ سبق ملتا کہ سرحدیں تہذیبوں کو مٹا نہیں سکتی۔ جس طرح اس مارچ کا استقبال ڈی جی خان اور تونسہ میں کیا گیا وہ ایک مشترکہ درد کی عکاسی تھا۔ اسی طرح کے پی کے کی سرزمین پر ڈی آئی خان کے غیور پشتونوں نے بھی اس مارچ کو ایسے ویلکم کیا کہ مظلومین کے کاروان کو حوصلہ ملا مگر بلوچستان کی خون پر بننے اور پھلنے والا اسلام آباد نے یزیدیت کو بھی شرمندہ کیا۔ اہل کوفہ سے ہمیشہ یہ گِلہ کیا جاتا ہے اور یہ ٹرم (اہل کوفہ) اُن اقوام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو خاموش تماشاہی ہوتے ہیں، مگر اہل کوفہ کو بھی یہ فخر ہوگا کہ اُن کے بیچ کوئی خریدہ فاروقی نہیں تھا۔
آنٹی خریدہ فاروقی! کے سوالات دیکھ کر یہی پتہ لگتا ہے کہ اُنکی صحافتی تربیت گھر میں بیھٹے چند انڈین چینلز کو دیکھ کر ہوئی ہے جہاں اینکر گلہ پاڑ کر اپنے من پسند سوالات کے جوابات کے لیے چلّا رہی ہوتی ہے۔ خریدہ کی برگر صحافت کسی کینٹ کے لیے تو ہوگا مگر انھیں یہ بنیادی اخلاقیات کو سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہاں کون سا سوال کس سے پوچھنا چاہیے۔
خریدہ آنٹی! آپ کا یہ انداز اور یہ سوالات آپ کے اُس سوچھ کی عکاسی کرتے ہیں جس میں آپ نے مان لیا ہے کہ آپ کی فوج الگ ہے اور اِن در بہ در بلوچوں کی فوج الگ، آپ اپنے فالج زدہ ذہن میں یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ آپ کی ریاست الگ ہے اور بلوچ کی الگ۔ آپ یہ ثابت کرنے کے لیے کس قدر ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں کہ ریاست بلوچوں کو لاپتہ کرکے غلطی کر رہی ہے اور بلوچوں کی ریاست پنجابی مزدوروں کو مار کر ظلم۔ آپ اپنے طورپر کسی کینٹ والے سے خریدے گئے اعلی و عظیم سوالات کر رہے ہونگے مگر دنیا آپ کی سوچ پر ہنس رہی ہوگی کہ کس طرح آپ نے خود سے یہ معیار بنا لیا ہے کہ پاکستانی فوج بلوچوں کو لاپتہ کرنے اور بلوچ نسل کُشی کررہی ہے تو بلوچوں کے فوج بی ایل اے و بی ایل ایف وغیرہ بھی تو بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو قتل کر رہے ہیں۔۔۔۔
آپ کے پلانٹڈ اور جی حضوری والے سوالات صحافت کے لیے بدنما داغ تو ہیں ہی مگر کس طرح اس ریاست کو مزید شرمندہ کر رہے ہیں، یہ آپ کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ آپ نے کیسے دو الگ ریاست بنا لیے، آپ ذہنی طورپر یہ مان چُکے ہیں کہ بلوچ آپ سے الگ ہیں۔ آپ کی جسٹیفکشن یہ ثابت کر رہیے ہیں کہ کیسے آپ اس ظلم کو برابری کی بنیاد پر تقسیم و تسلیم کرچکے ہیں کہ ریاست بلوچ نسل کُشی کررہی ہے تو بی ایل اے و بی یل ایف وغیرہ بھی تو بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کو مار رہے ہیں۔ آپ کی سوچ جبری گمشدگیوں کو جائز مان چکی ہے۔ آپ کی اِس سوچ نے بلوچستان سے خریدے گئے سرفراز بھٹی اور دوسرے آپ کے لوگوں بھی شرمندہ کیا جو اسی لیے بنائے گئے تھے کہ آپ یہ سوالات اُن سے پوچھیں اور وہ آپ کو آپ کا من پسند جواب دیں۔ پھر سوال بھی آپ کا، جواب بھی آپ کا اور سوال و جواب کرنے والے بھی آپ کے، بلکیں باپ کے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ اور یہ بلوچ مائیں، بچیاں اور بوڈھے لاپتہ افراد کے لواحقین سے بحیثیت کیا آپ یہ سوال پوچ رہی ہیں؟ بحیثیت بلوچ؟ کہ میں اپنے فوج کی غلطیان مان رہی ہوں آپ اپنے مان لیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو آپ کی سوچ کو کتنے تھوپوں کی سلامی دی جائے؟ پھر تو آپ اس سوال کے لیے جواز بنارہی ہیں کہ آپ کی فوج بلوچستان میں کیا کررہی ہے؟ آپ نے توڑی دیر کی چاپلوسی میں ریاست اور اُن کے اداروں کی ”میوزک“ بجا دی۔
اور اگر یہ لاپتہ افراد کے لواحقین آپ کے من پسند جوابات دے بھی دیں جس سے آپ کی تنخواہ میں اضافہ ہو، لیکن اگر یہ کہہ دیں کہ چلیں آپ بھی ایک لانگ مارچ کریں یہ بلوچ عورتیں آپ کی سربراہی میں اسلام آباد سے کوئٹہ پیدل مارچ کرینگی، آپ کر پائینگی؟ یہ بلوچ عورتیں تو عادی ہیں آپ اسلام آباد کی آسائشوں میں پرورش پانے والی برگر آنٹی یہ کرپائینگی؟
آپ کی سوچ پر تو کئی گھنٹوں کی خاموشی بھی بے کار ہے مگر ہاں آپ کی چاپلوسی، جہالت اور اس حرکت پر یہ بنتا ہے کہ واجہ محمد حنیف کا واپس کیا ہوا صدارتی ایوارڈ آپ کو دیا جائے۔۔۔