Contact Form

Name

Email *

Message *

Saturday 15 June 2019

حمل کو بولنے دو

جاوید بلوچ

سب سے پہلے یہ وضاحت دیتا چلوں کہ اس بلاگ میر حمل کلمتی صاحب کے بارے میں بات کی جارہی ہے جوکہ گوادر سے بلوچستان کے صوباٸی اسمبلی کے رکن ہیں تاکہ کسی قسم کی کوٸی کنفیوژن باقی نہ رہے

میر حمل کلمتی کی گزشتہ دنوں اسمبلی میں کی گٸی تقریر اس وقت انکے چاہنے والوں، ووٹرز اور جماعت کے لوگوں میں بے حد مقبول ہے جس کو شیٸر اور اسٹیٹس کیا جارہا ہے مگر حمل کلمتی صاحب کی سیاست اور انکی مقبولیت کے حوالے سے کچھ حقاٸق پر بالکل بھی اعتراظ نہیں کیا جاسکتا کہ میر صاحب اُن چند لوگوں میں شامل ہیں جن کو کسی سیاسی پارٹی یا پارٹی ٹکٹ کی ضرورت نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں اور ٹکٹوں کو انکی ضرورت پڑتی ہے یہی وجہ ہےکہ وہ پچھلے تین ادوار سے اپنے حلقے کی نماٸندگی کررہے ہیں اور بھرپور طریقے سے جیت رہے ہیں

کلمتی صاحب کی شخصیت ہی انتخابات میں کھڑا ہونے کیلیے کافی ہیں ناکہ کوٸی جماعت، وہ اپنے حلقے کیلیے پہلا اور آخری آپشن سمجھے جاتے ہیں اور انکی شخصیت اور میل میلاٶ اس قدر متاثر کن ہے کہ وہ کسی بھی بات کو ذاتیات پر نہیں لیتے، ناں ہی  جزباتی ہوتے ہیں اور ناں ہی باقی مکران اور بلوچستان کے نماٸندوں کی طرح خود کو عام عوام سے الگ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انکے حلقے میں انکی مخالف میں نامور شخصیات سے لیکر کوٸی بھی عام آدمی کھڑا ہوسکتا ہے،

میر صاحب کے تعلقات اس قدر خوشگوار ہیں کہ مسلم لیگ
کی صوباٸی وزارت اعلی ہونے کے باوجود بھی وزیراعلی سنإاللہ زہری صاحب کا گوادر میں زیادہ وقت جماعت کے لوگوں کے بجاۓ کلمتی صاحب کے ساتھ گزرتا تھا اور شاید یہی وجہ بنی کہ اشرف حسین صاحب نے نون لیگ سے استفیٰ دے دیا،

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف کہ پچھلے دنوں اسمبلی اجلاس میر حمل کلمتی صاحب جب اظہار خیال کرنے لگے تو گوادر اور اس سے جُڑے سی پیک اور اس حلقے پر الیکشن لڑنے کے شاٸقین ارکان سب کو اُن کا بولنا اس قدر بھاری لگنے لگا کہ ناں صرف انھیں بولنے نہیں دیا گیا اور ناں ہی اجلاس جاری رکھا گیا،


اس بات کے باوجود کہ وہ اس وقت ایک صوباٸی اسمبلی کے منتخب نماٸندہ ہیں اور اپنے ضلع کے 120341 وٶٹرز سے ایک بھاری تعداد میں وٶٹز لیکر آٸے ہیں
اگر حمل کو اسمبلی میں بولنے کی اجازت نہیں تو کیا وہ اپنے ووٶٹرز کے مساٸل ایک ایک کرکے موباٸل فون سے سنیں اور پھر ان کو جواب دیں یا بی این پی کی رکن ہونے کی وجہ سے یہ کام صرف سنإ بلوچ کو دی گٸی ہے؟

سنإ بلوچ کے ساتھ والے نشست پر بیٹھنے کی وجہ سے اب ہر بات تو ایک دوسرے سے نہیں کہی جاسکتی کہ تم اپنی باری میں یہ بولو میں یہ بولتا ہوں

سنإ بلوچ گوہ کہ ایک شعلہ بیان اور علم رکھنے والے مقرر ہیں مگر حمل کلمتی بھی کم نہیں ہیں اگر انھیں بھی بولنے کا اتنا ہی وقت دیا جاٸے

اسمبلی اجلاس ہی حلقے کی نماٸندگی کرنے کا واحد جگہ ہے ورنہ ٹوٸیٹر پر کلمتی صاحب نے اپنا آخری ٹوٸیٹ کب دیا تھا کہ بعد میں اس پر دوبارہ غور کرنے کا انھیں موقع بھی  
ملا یا نہیں وہ ٹوٸیٹ دیکھنے کے بعد اندازہ ہوگا،


لیکن کچھ باتیں بولنا بے حد ضروری ہیں کیونکہ کلمتی صاحب جن ماٸیگیروں سے وٶٹ لیتے ہیں وہ آج تک قانونی حیثیت سے اپنے شناخت کے منتظر ہیں، اگر اس کیلیے اسمبلی میں نہیں بولینگے تو اور کہاں بولینگے؟
میر صاحب فشریز کی وزارت میں تھے تب بھی ان کی بات نہیں سنی گٸی تھی اور ٹرالر مافیا سمندر لوٹتے رہے اور اب بھی سمندر لوٹا جارہا اس لوٹ ماری اور معاشی استحصال کے خلاف اگر میر صاحب اسمبلی میں نہیں بول سکتے تو کہاں بولیں؟

میر صاحب کے شہر میں ہمیشہ کوٸی نا کوٸی وفاقی صوباٸی ترقیاتی منصوبے سے متعلق اہم اجلاس ہورہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی اُنکی جماعت کے لوگ ماٸیگیروں کے ھمراہ موسیٰ موڑ پر ایسٹ ایکپرس وے کی تعمیرات سے متعلق دھرنا دیں اور اسمبلی کے اجلاس چلتے رہیں تو اتنا حق تو بنتا ہے کہ میر صاحب کچھ بولیں

تین ادوار کی مسلسل نماٸندگی کے باوجود ڈلیوری کی ہر کیس بلکیں ایک چھوٹے سے بخار کیلیے بھی گوادر کے شہری کراچی جانے پر مجبور ہوں، کیا پھر بھی میر صاحب نہ بولیں؟

ضلع کی آبادی میں کٸی سال گزرنے کے باوجود بھی مردم شماری میں اضافہ نہ دکھانا، جبکہ شہر جو کبھی بمشکل جاوید کملکس تک ختم ہوتا تھا اب اٸیرپورٹ تک دگنی لمباٸی تک پھیلا ہوا ہےاور مزے کی بات کہ صرف ایک گاٶں دشت مٹینگ کے علاوہ اس ضلع سے کسی بھی قسم کی کوٸی ہجرت نہیں ہوٸی اور یہ نقل مکانی بھی اندرون ضلع ہی ہوٸی ہے مگر ہمسایہ اضلاح سے بڑی تعداد میں لوگوں کی ہجرت کے باوجود بھی وہاں آبادی میں اضافہ ہوتا ہے، اس ناانصافی پر اگر یہ سب میر صاحب اسمبلی میں نہیں بولینگے تو کہاں بولیں؟

میر صاحب کے حلقے کے وہ کام جو میر صاحب کی جماعت کو اعتماد میں لیے بغیر شروع کیے جاتے ہیں وہ تو چند مہینوں میں مکمل ہوتے ہیں مگر ایک ڈیجیٹل پبلک لاٸبریری سالوں بعد بھی مکمل نا ہو؟

میر صاحب کے حلقے سے طابعلم وزیراعظم اسکالرشپ
کیلیے ٹیسٹ پاس کرنے کے باوجود بھی اسکالرشپس حاصل نہ کر پاٸیں،
شرح خواندگی  نا ہونے کے برابر ہو،
بجلی اور پانی عوام کیلیے نایاب ہوں وغیرہ وغیرہ
اگر  پھر بھی میر صاحب اسمبلی میں نا بولیں پھر تو میڈیا کی طرح گوادر کے لوگ بھی ہر حمل نام کو لاپتہ سمجھینگے


اسمبلی اجلاس میں بولنا اصل میں اپنے قوم کو اطمنان دلانا ہے کہ واقعی انھوں نے جس نماٸندے کو منتخب کیا ہے وہ صحیح سلامت اور منظر عام پر موجود ہیں کیونکہ جس دن حمل نام سے متعلق میڈیا پر گفتگو چل رہی تھی کہ وہ لاپتہ افراد کی لسٹ میں شامل ہیں یا نہیں تو ایک شخص نے یہ بھی سوال کر ڈالا کہ
 ”زرا پتہ تو لگاٶ کہیں پی سی ہوٹل والا حمل ہمارا والا ایم پی اے حمل نہ ہوں اُن کو بھی الیکشن کے بعد سے ہم نے نہیں دیکھا ہے“ 

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...