Contact Form

Name

Email *

Message *

Wednesday 20 November 2019

زندہ ہیں طلبا ٕ

 جاوید بلوچ


کہتے کہ جب خاموشی انتہا کو پہنچٕے تو سمجھ لینا چاہیے کہ دھماکہ ہونے کو ہے کیونکہ بلا وجہ تو سمندر کی موجیں بھی خاموش نہیں رہتی اور انقلابیوں کو یہ بات وراثت میں وسیعت ملی ہے کہ قابض اور سامراج اگر اونچا بھی نہ سنے تو دھماکہ کرنا لازمی ہوجاتا ہے، ایک کامریڈ  نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ میرے جنازے کو بھی دھوم دھام سے نکالو تاکہ پتہ چلے کی ایک انقلابی کی میت جارہی ہے۔

طلبإ ایک ایسی قوت اور جماعت کی نام ہے جو مختلف گھرانوں، تہذیبوں، جغرافیہ اور قوموں سے نکل کر ایک ادارے میں داخل ہوتے ہیں اور نکل کر قوم، ملک اور سلطنت کے والی و وارث بنتے ہیں بشرطہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کے چند خاندان اس قوم، ملک اور سلطنت کو یرغمال نہ بناتے ہوں، کیونکہ یہ جاگیردار اپنا دن دولت اور طاقت کو ہر حد تک استعمال کرتے ہیں کہ حق حکمرانی ان کے ہی پاس رہے۔

اس وقت ایشیا میں چلنے والی کٸی تحریکوں میں طلبإ تحریک صفے اول کی تحریکیں ہیں جن میں  دنیا کی سب سے بڑی جمعوریت کہلانے والی ملک ہندوستان کے دارلحکومت نٸی دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علموں کی احتجاجی تحریک بھی شامل ہے جو ایک سخت گیر انتہا پسند جماعت کی حکومت کے خلاف اپنے بنیادی حق تعلیم، تعلیم دشمن پالیسیوں اور ایک اونچے طبقے کی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، ان طلبإ کے مطالبات بس اتنے ہی ہیں کہ یکساں نظام تعلیم ملک میں راٸج ہو، ملکی بجٹ کو خطرناک اسلحہ کی خرید و فروخت اور ایک طبقے پر لگانے کی بجاٸے سستی اور معیاری تعلیم پر لگایا جایا مگر نہ تو یہ بات اسلحہ پسند سرمایہ دار حکومت کو پسند ہے اور ناں ہی سرمایہ دار نظام کی پیداوار اشتہاراتی میڈیا کو،

اسی لیے اس طلبإ احتجاج کو کچلنے کیلیے نا صرف انتہا پسند سرکار طاقت کا وحیشیانہ استعمال کرکے دنیا کی سب سے بڑی جمعوریت ہونے کو داغ دار کررہی ہے بلکیں اشتہاراتی میڈیا اور ان پر بیٹھے زرد صحافت کرنے والے براٸے نام صحافی حضرات بھی چیخ چیخ کر اپنا گلا خشک کررہے ہیں کہ یہ ٹکڑے ٹکڑے گنگ ملک دشمن اور غدار ہیں،


  اسی طرح ہانگ کانگ کے نوجوان طلبإ بھی بھی اس وقت کی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک کا حصہ ہیں جو اُن کی نظر میں انکے شناخت کی جنگ ہے جسے دنیا کی ابھرتی ہوٸی سرمایہ دار طاقت اور نامنہاد کمیونسٹ ملک سے اپنی بقإ کو درپیش مسٸلہ سمجھتے ہوٸے اپنی قابض حکومت سے لڑرہے ہیں، وہاں بھی اس تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت اور بین الاقوامی سرمایہ دار نظریہ کی تعاون کے سے ختم کرنے کی کوشش جاری ہے

اس وقت پاکستان میں طلبإ یکتہجی مارچ بھی چل رہی ہے جو کامریڈ فیض کے نام سے منسوب میلے کی مناسبت سے جاگ اٹھی ہے جہاں نعرہ تو لگایا جارہا ہے کہ ”فیض تیرا مشن ادھورہ، کرینگے ملکر ہم پورا“ اور لال لال لہرانے کی بڑی بڑی باتیں بھی کی جارہی ہیں مگر خدشہ ہے کہ یہ لال لال کامریڈ فیض میلے کے ختم ہوتے ہی سیاہ رنگ میں تبدیل نہ ہوجاٸے

ہمیں معلوم ہے کہ شاید یہ تحریک اور نعرے اتنے زیادہ طول تک نہ جاٸیں جب بلوچستان کے لاپتہ طالب علم بازیاب ہوں، اس قدر بھی منظم نہ ہو کہ ملکی بجٹ میں سے تعلیم کا حصہ دفاعی بجٹ جتنا ہو، شاید ایسا بھی نہ ہو کہ محنت کش مچھیرے کا بچہ مفت ہاٸیر ایجوکیشن حاصل کرے، یہ بھی نہ ہو کہ ہر بچی اور بچہ جو اسکول میں داخلہ لے اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو،


مگر کم از کم اتنا ہو کہ دوبارہ کسی تعلیمی ادارے میں کسی مشال  کا بے رحمانہ قتل نہ ہو، کسی میڈیکل کالج کی طالبہ کا خاموش قتل نہ ہو،
یہ لال لال اتنی جلدی سیاہ نہ ہو کہ جب کسی یونیورسٹی میں طلبإ کو جنسی ہراسمنٹ کا شکار بنیایا گیا ہو اور گرلز ہاسٹلز کی واشرومز کے بناٸے گٸے ویڈیوز موجود ہوں اور کیس رفع دفع ہو،

اور اتنی جلدی بھی لال لال کا رنگ نہ اڑ جاٸے جب جامعہ کراچی جیسی بڑی یونیورسٹی میں بواٸز ہاسٹل کی بلڈنگ موجود ہو مگر اس میں ملک کے دور دراز سے آٸے ہوٸے طالب علم نہ رہتے ہوں،

یہ مشن پورا کرنے والے سرفروش، زندہ طلبإ، ایشیإ کو سرخ کرنے سے پہلے اور سرمایہ دار طبقاتی نظام کے تعلیم دشمنوں سے یکساں نظام تعلیم راٸج کرانے سے قبل ہی محض فیض میلے کی اختتام کے ساتھ مرجا نہ جاٸیں۔

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...