Contact Form

Name

Email *

Message *

Thursday 9 August 2018

طالبعلم نہیں، روبورٹس

آج کا طالبعلم ایک روبورٹ
جاویدبلوچ

اگر آج ایک طالبعلم اور روبورٹ میں فرق کرنے کو کہا جائے تو بہت ہی مشکل ہوگا بلکیں یہ دو مترادف ہی لگینگے
کیونکہ روبورٹ کو انسان نے جس مقاصد کیلیے بنایا ہے وہی کام آج کا طالبعلم کررہا ہے، آج کی ذہن سازی اس قدر آسان ہے کہ کوئی بھی شخص چند طلبہ کو اکھٹا کرکے انھیں کچھ بھی بنا سکتا ہے، کسی سیاسی جماعت کے نعرے باز، مذہب کے ڈنڈے بردار یا سیلفی مریض....
مطلب اُس سے ملکر سیلفی لے لو اور اپ لوڈ کرلو مگر بنو صرف روبورٹ اور غلطی سے طالبعلم نہ بننا کیونکہ طالبعلم سوچھتا ہے، پھر سوال بناتا ہے اور پھر پوچھتا ہے
وہ شخصیت، سیاسی جماعت، نوکری یا ٹیکہداری یا کسی عہدے کیلیے اپنے اس نام کو داغدار ہرگز نہیں کرسکتا بلکیں ایسا سوچھ تک نہیں سکتا کیونکہ وہ ایک طالبعلم ہوتا ہے، ایک طاقت، ایک ذہن، ایک سوچھنے کی صلاحیت رکھنے والی ذہن...
جو جی جی ہی نہیں کرتا بلکیں کیسے؟ کیوں؟ بھی کرتا ہے
وہ کائنات کی وسعتوں پہ نظریں جماتا ہے ناکہ ایک محدود حلقے پہ، اسے پتہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا بھر کی سب سے بڑی اکثریت ہے، اور اس طاقت کو وہ کسی بھی صورت چند ڈنڈوں، جھنڈوں یا سیلفیوں کی خاطر یا ایک ٹیکہ اور پگار کی نظر نہیں کرتے

بلکیں وہ شہید حمید جیسی تربیت پاکر غلط کو اپنے لیے، اپنی قوم کیلیے اور دنیا کیلیے غلط ہی سمجھے گا، اس کے خلاف بولے گا اور مزاحمت بھی کرےگا
وہ کنہیا کماری بن کر ایک شور میں بھی آواز بنے گا اور اس دنیا کی دوسری بڑی آبادی والی ریاست کی زورآور حکومت کو للکارے گا
شہید مشال خان


وہ مشال بن کر موت کو گلے لگائے گا مگر ایک روبورٹ نہیں بنے گا جو کسی کی وکالت کرتے کرتے صفائیاں دے یا نام نہاد طلبہ تنظیم مگر کسی اشرفیہ کی سال بھر کے اخباری بیانات کو رٹ کر سرکل میں اس کی ترجمانی کرے....
وہ اگر طالبعلم ہے تو سوچھے گا اور اپنے سوچھ کو دلائل کی بنیاد پر سوالات کے جوابات دلائے گا بغیر کسی گنا ، ثواب یا نیکی بدی کے...

طالبعلم قطب رند بن کر اپنے خیالات پر کسی کو حاوی نہیں ہونے دے گا بلکیں پنسل کی نوک سے انھیں خوبصورتی سے اظہار قابل کرےگا

شہید قطب رند

وہ روبورٹ بن کر کسی کی جیت یا ہار پر کسی کی ترجمانی یا بدزبانی کا بوجھ نہیں بلکیں غلط نظام بدلے گا، انقلاب لائے گا
بنگلہ دیش میں جاری حالیہ طلبہ احتجاج کی طرح ٹریفک مافیا اور کرپٹ حکومت کے خلاف مزاحمت کرےگا

وہ رجب اور دیاؤں کو کچلنے نہیں دے گا، وہ چترال میں طلبہ خودکشی پر بے خبری کی نیند نہیں سوئےگا، بشرطہ کہ وہ ایک طالبعلم ہو کوئی روبورٹ نہیں....
روبورٹ ہوگا تو سل اور بیٹری پر چلے گا سہی مگر اس کیلیے زندہ باد و مردہ باد اور دوسرے طوطے کی طرح رٹے رٹائے نعروں میں قید ہوجائے گا
سوچھ ، سوال اور خود سے محروم ایک روبورٹ رہے گا
کاش کوئی طلبہ تنظیم ہوتا جس میں طالبعلم ہوتے اور آج پھر قطب، رجب اور دیا مارے نہ جاتے، کچلے نہ جاتے...
بنگلہ دیش میں طابعلموں نے اپنے بھرپور احتجاج سے اپنے طالبعلم ہونے کا ثبوت دیا تو سرکا کی طرف انھیں چپ کرانے کیلیے روبورٹس بھی چوڑے گئے مگر ناکام رہے

لیکن ہم ہماری طرح کے "قصر سلطانی کے گنبد" والے روبورٹس ہمیشہ زندہ باد اور پائندہ باد ہیں

@JavedGwadari
bjaved739@gmail.com

Sunday 5 August 2018

سر یوسف، ایک درد بھری انسان

جاویدبلوچ

کہتے ہیں کہ موت برحق ہے ، ہر انسان جو آج زندہ ہے کل اسے مرنا ہے ہم جیتے ہیں مرنے کیلیے مگر سر یوسف شاید وہ انسان ہے جنھیں موت کبھی نہیں مار سکتی کیونکہ موت جتنا  درد تو وہ روز اپنے چند الفاظوں میں سہہ لیتے تھے
اگر وہ مرے بھی تو کسی افینڈسک یا آپریشن کی وجہ سے نہیں بلکیں کئی دردوں کا بوجھ سہہ کر اُن سے لڑکر مرا ہے ہاں وہ ایک جسم کی صورت مرا ہے یہ حقیقت ہے اور اسی حقیقت کے وہ حق میں تھے، وہ کسی روایتی ، ڈرامائی یا دکھاوائی کے سخت خلاف تھے، ایک سیدھا سامنے بات کہنے والے صحافی استاد!
سر کی ہر لیکچر جب میں سن رہا ہوتا تو مجھے لگتا کہ کامریڈ فیض کی اس نظم کی تفسیر بیان کی جارہی ہے
سر مالک اچکزئی کی پوسٹ، سر یوسف کو یاد کرتے

آج کے نام "
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کا نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہ جہاں والئ ماسوا، نائب اللہ فی الارض
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھا گئے ہیں
ان بیاہتاؤں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریاکار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹٹریوں اور گلیوں محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزومند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
وہ معصوم جو بھولے پن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں
جل جل کے انجم نما ہوگئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہوگئے ہیں "
میرا(جاوید بلوچ) کا ٹوئیٹ


جس دن سر نے شینیلا سے گانے کی فرمائش کی سوچھا میں بھی فیض کی یہ نظم سنا دوں مگر......


استاد ایک ایسی ہستی ہوتی ہے جسے چند الفاظ
میں مکمل بیان کرنا ایک بے وقوفانہ سی کوشش ہوگی مگر سر یوسف میرے وہ دوسرے استاد تھے جو کلاس میں دوران لیکچر بچوں کی خاموشی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، وہ لیکچر کے درمیان نہایت ہی میٹھی انداز میں "ہاں بھئی کریم، جاوید، سبین، حبیب  تم بھی کچھ بولو"
وہ معلومات کا خزانہ تھے ہی تھے مگر انسانیت پرست اور انکے درد میں ڈوبے ہوئے ایک ملنگ اور ولی تھے گو کہ وہ ڈنگ پیر فقیروں سے اختلاف رکھتے تھے

اسے اس بات کی ٹینشن تو ہوتی تھی کہ سیلیبس مکمل ہو مگر اس سے زیادہ وہ اس بات پر پریشان ہوتے تھے کہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح ڈڈ لیول تک پہنچ گیا ہے، گوادر میں بحری جہازوں کی تیل سے سمندری ماحول اور حیات کو خطرہ لاحق ہے
پلاسٹک سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے
کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کراہی جارہی ہیں
مذہب ایک کاروبار بن گیا جو مختلف ٹیکہداروں کی نگرانی میں ہے
مشال کے والدین انصاف کے بجائے گھر نکلنے سے ڈرتے ہیں وغیرہ وغیرہ
ایسی کونسی درد نہ ہو جو سر کے سینے میں موجود نہ تھا....
وہ عظیم تر تھا، ہے، اور رہے گا

وہ ایسی درد کا تجوری تھے جو کسی ایک بیماری سے ہرگز مر نہیں سکتے...
وہ ایک وسیع ذہن اور ترقی پسند دماغ کے مالک تھے مگر ایسی ترقی کے شدید خلاف تھے جسے اپنانے والے اس کے قابل نہ ہوں یا اسے مکمل جانتے نہ ہوں

وہ ایک کامریڈ تھے جو مذہب ، قومیت اور مختلف دوسرے پابندیوں سے آزاد ایک انسان تھے اور ان کو پسند کرتے تھے جو انسانیت پسند تھے، 
بھلے دنیا نے انھیں انکی شناخت کیلیے مسیح کا لقب دیا تھا مگر وہ ذہن سازی کا مسیحا تھے اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ دائیں ہاتھ پر لکھا یوسف مسیح صرف ایک لاش کی شناخت ہوسکتی ہے ایک انسان کی نہیں....
وہ ایک ایسے علم کی شمع تھے کہ دنیا بھر کے درد پروانوں کی طرح اس کی طرف کینچھتے چلے آتے تھے
سر یوسف ایک شخصیت نہیں ایک انسان، درد بھری انسان تھے
سر کی وفات کی خبر سے متعلق کچھ اور دوستوں کے سوشل میڈیا پر دیے گئے تاثرات



bjaved739@gmail.com
@javedGwadari
Javed MB Baloch (student of Media)


New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...