Contact Form

Name

Email *

Message *

Sunday 5 August 2018

سر یوسف، ایک درد بھری انسان

جاویدبلوچ

کہتے ہیں کہ موت برحق ہے ، ہر انسان جو آج زندہ ہے کل اسے مرنا ہے ہم جیتے ہیں مرنے کیلیے مگر سر یوسف شاید وہ انسان ہے جنھیں موت کبھی نہیں مار سکتی کیونکہ موت جتنا  درد تو وہ روز اپنے چند الفاظوں میں سہہ لیتے تھے
اگر وہ مرے بھی تو کسی افینڈسک یا آپریشن کی وجہ سے نہیں بلکیں کئی دردوں کا بوجھ سہہ کر اُن سے لڑکر مرا ہے ہاں وہ ایک جسم کی صورت مرا ہے یہ حقیقت ہے اور اسی حقیقت کے وہ حق میں تھے، وہ کسی روایتی ، ڈرامائی یا دکھاوائی کے سخت خلاف تھے، ایک سیدھا سامنے بات کہنے والے صحافی استاد!
سر کی ہر لیکچر جب میں سن رہا ہوتا تو مجھے لگتا کہ کامریڈ فیض کی اس نظم کی تفسیر بیان کی جارہی ہے
سر مالک اچکزئی کی پوسٹ، سر یوسف کو یاد کرتے

آج کے نام "
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کا نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہ جہاں والئ ماسوا، نائب اللہ فی الارض
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھا گئے ہیں
ان بیاہتاؤں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریاکار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹٹریوں اور گلیوں محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزومند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
وہ معصوم جو بھولے پن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں
جل جل کے انجم نما ہوگئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہوگئے ہیں "
میرا(جاوید بلوچ) کا ٹوئیٹ


جس دن سر نے شینیلا سے گانے کی فرمائش کی سوچھا میں بھی فیض کی یہ نظم سنا دوں مگر......


استاد ایک ایسی ہستی ہوتی ہے جسے چند الفاظ
میں مکمل بیان کرنا ایک بے وقوفانہ سی کوشش ہوگی مگر سر یوسف میرے وہ دوسرے استاد تھے جو کلاس میں دوران لیکچر بچوں کی خاموشی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، وہ لیکچر کے درمیان نہایت ہی میٹھی انداز میں "ہاں بھئی کریم، جاوید، سبین، حبیب  تم بھی کچھ بولو"
وہ معلومات کا خزانہ تھے ہی تھے مگر انسانیت پرست اور انکے درد میں ڈوبے ہوئے ایک ملنگ اور ولی تھے گو کہ وہ ڈنگ پیر فقیروں سے اختلاف رکھتے تھے

اسے اس بات کی ٹینشن تو ہوتی تھی کہ سیلیبس مکمل ہو مگر اس سے زیادہ وہ اس بات پر پریشان ہوتے تھے کہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح ڈڈ لیول تک پہنچ گیا ہے، گوادر میں بحری جہازوں کی تیل سے سمندری ماحول اور حیات کو خطرہ لاحق ہے
پلاسٹک سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے
کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کراہی جارہی ہیں
مذہب ایک کاروبار بن گیا جو مختلف ٹیکہداروں کی نگرانی میں ہے
مشال کے والدین انصاف کے بجائے گھر نکلنے سے ڈرتے ہیں وغیرہ وغیرہ
ایسی کونسی درد نہ ہو جو سر کے سینے میں موجود نہ تھا....
وہ عظیم تر تھا، ہے، اور رہے گا

وہ ایسی درد کا تجوری تھے جو کسی ایک بیماری سے ہرگز مر نہیں سکتے...
وہ ایک وسیع ذہن اور ترقی پسند دماغ کے مالک تھے مگر ایسی ترقی کے شدید خلاف تھے جسے اپنانے والے اس کے قابل نہ ہوں یا اسے مکمل جانتے نہ ہوں

وہ ایک کامریڈ تھے جو مذہب ، قومیت اور مختلف دوسرے پابندیوں سے آزاد ایک انسان تھے اور ان کو پسند کرتے تھے جو انسانیت پسند تھے، 
بھلے دنیا نے انھیں انکی شناخت کیلیے مسیح کا لقب دیا تھا مگر وہ ذہن سازی کا مسیحا تھے اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ دائیں ہاتھ پر لکھا یوسف مسیح صرف ایک لاش کی شناخت ہوسکتی ہے ایک انسان کی نہیں....
وہ ایک ایسے علم کی شمع تھے کہ دنیا بھر کے درد پروانوں کی طرح اس کی طرف کینچھتے چلے آتے تھے
سر یوسف ایک شخصیت نہیں ایک انسان، درد بھری انسان تھے
سر کی وفات کی خبر سے متعلق کچھ اور دوستوں کے سوشل میڈیا پر دیے گئے تاثرات



bjaved739@gmail.com
@javedGwadari
Javed MB Baloch (student of Media)


No comments:

Post a Comment

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...