Contact Form

Name

Email *

Message *

Monday 23 July 2018

آدم خور معاشرہ

ہمارا آدم خور معاشرہ پنجھے پال رہا ہے
جاویدبلوچ
Me student of journalism

@JavedGwadari

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں دن بدن تفرقہ بڑھتی جارہی ہے، لوگ اپنے جیسے لوگوں سے الگ رہنا چاہتے ہیں ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے جہاں ہر شخص آگے نکلنا چاہتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جو پیچھے رہ گیا وہ کم تر، کم درجہ اور تمام تر وقار و عزت سے گرا ہوا ہوتا ہے، اگر کچھ لمحوں کیلیے سوچھو بھی تو عجیب و غریب سا لگنے لگتا ہے
کچھ دن پہلے کچھ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو ہورہی تھی تو بات نکلی انتخابات کہ پہلے یوں ہوتا تھا کہ اشرفیہ طبقہ ووٹ کیلیے صرف خاندان کے کسی ایک بڑے یا چالاک شخص سے ملتے تھے اور تمام ووٹ لے کر سالوں غائب ہوتے تھے اگر ملتے بھی تو صرف اسی سرکردہ سے جو ووٹ لے کر اسے جتواتا تھا

مگر اب ایسا نہیں رہا اس خاندانی سرکردہ کو باقی خاندان کے لوگ نہیں مانتے کیونکہ وہ اگر اس وزیر یا نمائندے سے ملتا تو صرف اپنے ذاتی یا اپنے بچوں کے کام نکلواتا، خاندان صرف یرغمال ہوتا تھا، اب ہر شخص دوسرے سے نفرت کرنے لگا ہے اپنا کام خود کرنا چاہتا ہے دھوکے میں نہیں رہنا چاہتا، اس کے لیے چالاک طبقوں نے اب ووٹ کیلیے پیسے چلانے کا رواج عام کیا ہے جہاں چند پیسوں سے ووٹ حاصل کیے جاتے وہاں کے اسکول، ہسپتال ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہیں اور ان اسکولوں اور ہسپتالوں کے پیسوں صرف خود پر خرچ کیے جاتے ہیں
اس سرکردہ اور فردی مفاد کا انجام یہ ہوا کہ معاشرے میں ہر شخص سرکردہ بننا چاہتا ہے ہر کوئی دوسرے سے صرف مفاد نکالنا چاہتا ہے، جتنا ہوسکے دوسرے کو لوٹنا چاہتا ہے ایک بھوک نے ہر شخص کے اندر جنم لیا ہے جو روز بروز بڑھتی جارہی ہے
ایسی بھوک جو انقلاب فرانس اور روس کے وقت عوام میں تھی جس میں بادشاہت سے ایسی نفرت ہوئی کہ ان کو اہل و عیال سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا، انکے جسموں کو نوچ ڈالا بلکیں کھایا بھی
ایسی نفرت جس سے لیبیا کے لوگوں نے اپنے بادشاہ کزاففی کی لاش کو چوراہوں پہ گھسیٹا
آج ہمارے معاشرے کا بھی غریب اکثریتی طبقہ ایک ایسی بھوک کی طرف مائل ہورہی ہے انکے دلوں میں انکے کونسلر سے لیکر ہر نمائندہ، کسی بڑے پوسٹ پر فائز سرکاری افیسر وغیرہ سب کیلیے نفرت کے سوا کچھ نہیں اگر سامنے جھک کر سلام کرے تو دل میں ہزار گالیاں دے گا
یہی وجہ ہے جہاں جسے جو بھی موقع ملے وہ دوسرے کو ستائے گا بلکیں تڑپائے گا اور اپنا کوئی نا کوئی بدلہ اس سے ضرور لے گا

اگر وہ ٹریکٹر، ٹرک یا رکشاہ چلا رہا ہے تو بھرپور کوشش کریگا کہ اس ائیرکنڈیشن کار والے کو راستہ نہ دے
اگر ڈاکٹر ہے تو اپنی اسٹیٹس کو ہائی لیول طبقے تک ملانے کیلیے ہر دوائی کمپنی سے ملکر عام زندگیوں سے کھیل کر اپنی زندگی بنانے کی کوشش کریگی
اگر وہ کسی دفتر کا کلرک ہے تو اپنے افسرز کی کرپشن کو دیکھ کر اپنے حالت کو برا سمجھ کر اسے تبدیل کرنے کی ہر ناجائز کوشش کریگی اور اپنے سے نیچھے لوگوں پہ جتنا کرسکے زیادتی و بے رحمی کریگی
ایک عام آدمی آج عام نہیں بلکیں حساس ہوتا جارہا ہے
ٹریفک پولیس اپنے صاحبوں کی ڈیوٹی نہ دینے کا بدلہ سڑک کنارے کھڑے ریڑی والے سے لیتا ہے جتنی گالیاں دے سکتا ہے اسے دیگا بلکیں کھلے عام پیٹھگا بھی

ایک مسجد کا مولوی محض چند روپوں کی خاطر زندگی بھر امامت کرانے کیلیے کیسے رازی ہو؟ وہ ہر طرح ہوسکے بیان میں ردوبدل کرکے اور جس نمازی کے جیسے بھی کمائے ہوئے مال و زر ہوں انھیں حاصل کرنے کی خاطر جمعہ کا خطبہ اسی طریقے کا ہی دے گا
غرض کہ ہر طریقے سے معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے  کپڑوں سے لیکر، چھت، خوراک، رنگھت ، ڈیل ڈال ہر چیز چینا چاہتے ہیں
لگتا کہ ہر شخص اندر ہی اندر بڑے پنجھے پال رہا ہے اور دوسرے پر حملہ کرکے اسے کھانا چاہتا ہے
ہم اور ہمارہ معاشرہ آدم خور بنتے جارہے ہیں بھلے ہر پارٹی کے جلسے میں جاکر یہ محسوس کراتے ہیں کہ لوگ سمجھیں کہ فلاں شخص فلاں پارٹی کا مگر حقیقت میں صرف نفرتیں جنم لے رہی ہیں اور نوچ کر کھانے والی قربتیں بڑھ رہی ہیں

سیاستدان جتنا ڈھنک رچا سکے رچائے گا جتنی ھمدردی حاصل کرسکتا ہے جس بھی طریقے سے وہ کریگا مگر اپنی کرسی کو جانے نہیں دےگا گو کہ بعد میں ناں منشور بچےگا ناں وعدے

وہ ایک پرائیوٹ اسکول کے فیسوں کی صورت ہو یا دودھ میں ملایا ہوا پانی کی صورت میں ہر شخص اس کا شکار بھی ہے اور شریک بھی
اب کب یہ بھوک، یہ گٹھن باہر نکلیگی پتہ نہیں مگر اسکے آثار واضح اور شدید تر ہوتے جارہے ہیں یہ مذہبی جنونیت کی صورت یا ذاتی برتری کی صورت ہر طرح سے نمایا ہے
دوسروں کو نقصان پہنچانا بھلے خود کو پہنچے، دوسروں کو ذلیل کرنا خود چاہے کتنا بھی ہوں، یہ ایک اشتعال انگیز اور خطرناک چہرہ ہمارے معاشرے کا.....
ایک آدم خور چہرہ....
bjaved739@gmail.com

Tuesday 17 July 2018

پیرغئیب، بولان کی حسن کو بچائیے

جاویدبلوچ
پیرغئیب آبشار وادی بولان میں واقع ایک تفریحی مقام ہے جو بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے ستّر کلومیٹر کے فاصلے پر ہے
جہاں دور دراز سے اکثر لوگ سیروتفریح اور پکنک کیلیے آتے ہیں، جن میں سے باز تو دو سے تین دن تک قیام بھی کرتے ہیں
نوجوان سلفیاں لیتے ہوئے

تالاب جہاں ڈوبنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے














پکنک اور تفریح پر آئے ہوے لوگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ حسین مقام اپنی خوبصورتی کھو رہا ہے،
لوگ کھانے پینے کی چیزیں اور پانی کی بوتلیں سمیت اپنا تمام تر کچرہ وہیں پھینک کر روانہ ہوجاتے ہیں
پانی کی سطہ پر جمع شدہ کچہرہ

عجیب بات یہ ہے کہ اکثر لوگ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں جو اس گندگی کو یوں ہی چھوڑ جاتے ہیں بجائے اس کو کسی ایک جگہ ٹکانے لگانے کی

پیرغئیب ایک بزرگ کی مناسبت سے اس مقام کو کہا جاتا ہے جہاں انکی قبر بھی ہے جو ایک درگاہ نما ہے جس کی پاسپانی کیلیے لوگ بھی ہیں مگر صفائی کے حوالے کوئی بھی انتظام نہیں ہے
پلاسٹک کی تھیلیاں درختوں کی جڑوں کے ساتھ

بحیثیت زمہدار شہری یہ ہماری زمہ داری کہ ہم اخلاق کا مظاہرہ کرکے اپنے تفریحی مقامات کی حفاظت کریں
ویدیو دیکھنے کیلے لنک پر کلک کریں
https://youtu.be/lys8kHO7eQE

Monday 16 July 2018

عورت کا ووٹ

جاویدبلوچ
Twitter @JavedGwadari

ہمارے معاشرے میں عورت کو عزت اور مقام دینے کیلیے اسے ماں، بہن، بیٹی یا بیوی تصور کرنا لازمی ہے عورت بحیثیت عورت عزت سے دور بے پردگی اور کوئی فحش چیز محسوس کی جاتی ہے، اسی لیے یونیورسٹیز کی تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی اپنی بقاء اور مردوں کے معاشرے میں مردوں کے بیان کردہ عزت کو تسلیم کرکے اپنے کلاس فیلوز کو بھائی کہہ کر ہی پکارتی ہیں

ان دنوں پاکستان میں الیکشن کی گہما گہمی ہے فاطمہ جناح سے لیکر عاصمہ اور گل بخاری تک اور بلکیں ریحام خان کو بھی شامل کردیتے ہیں اور قندیل بلوچ کو بھولنے کی کوشش کرکے آج کی عورت کی مقام اور اس کے حق رائے دئی کا تھوڑا سا تجزیہ کرتے ہیں اور خصوصا بلوچستان کے تناظر میں

یہاں کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا بلوچستان کی عورتیں ووٹ کاسٹ کرتی ہیں؟ اگر ہاں تو کس بنیاد پر کرتی ہیں؟ اور ایک فضول سا سوال یہ بھی شامل کردیتے ہیں کہ کیا بلوچستان کی عام عورت کو ووٹ کاسٹ کرنا  چائیے بھی یا نہیں؟

چونکہ ووٹ ہر کسی کے پاس ایک امانت ہوتی ہے جسے وہ صحیح حقدار تک پہنچاتی ہے اور اپنے طاقت اور جمہوریت کو مظبوط بناتی ہے مگر بلوچستان میں کتنے ایسے علاقے ، گاؤں اور شہر  ہونگے جہاں خواتین کے شناختی کارڈز نہیں ہیں کیونکہ نادرہ کے سخت مگر پھر بھی اپروچ والوں کیلیے آسان شرائط جہاں نمائندوں کے دستخط، فلاں کے دستخط وغیرہ لینا ہوتے ہیں وہاں ایک خاتون جس کیلیے گھر کی چار دیواری ہی عزت، شرافت اور عظمت کی نشانی سمجھی جاتی ہے اس کے لیے اتنی خواری کرے کون اور کوئی ایک شناختی کارڈ بنوائے؟

اب اگر کسی کی شناختی کارڈ ہے بھی تو وہ ووٹ کس کو دیگی؟ کیا وہ جسے ووٹ دینے جارہی ہے اسے جانتی ہے؟ کبھی اس سے اس کا واسطہ پڑا ہے؟ اس کے منشور سے آگاہ ہے؟ کل کو اس کے دفتر، گھر یا اپنے نمائندے کی نمبر تک ملائیگی؟ اگر ان سب کی ضرورت ہی نہیں پڑیگی تو وہ ووٹ دے کیوں؟

الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے تحت انتخابات کیلیے خواتین کو ہر صورت مساوی موقع ملنا چاہیے مگر آج تک کسی جلسے میں جتنے مرد اتنی عورتیں نہیں دیکھی گئی ہیں ، اُن کے الگ جلسے بھی نہیں کرائے گئے

ایک عام عورت ووٹ کے دن گھر سے نکل کر ایک رش والی جگہ جہاں تمام مرد ووٹر کھڑے ہوں وہاں جاکر ووٹ کاسٹ کرے لیکن ایک سوال یہ اٹھتا ہے جو پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر  تھوڑا سا اُٹھایا بھی گیا تھا کہ کیا ان نمائندوں کے اپنے گھر کی عورتیں ووٹ دینے نکلتی ہیں؟
اگر نہیں تو کوئی اور کیوں نکلے اور اپنا ووٹ کاسٹ کرے؟ یہ بات شاید معمولی سی ہو مگر خواتین ووٹر کی رجسٹریشن، پولنگ تک جانا ، کس امیدوار کو ووٹ دینا اور کیوں دینا؟ یہ تمام کسی نہ کسی کی تو زمہ داری ہے کہ آگاہی پہنچائے وگر نہ جائیداد کی طرح عورت کا ووٹ بھی گھر کے مرد کا ہوگا اسی کی مرضی سے ہوگا اگر ہوا تو...
باقی رہی بات نمائندگان کے اپنے گھر کی خواتین ووٹوں کی مجھے نہیں لگتا کوئی بھی ایسا کچھ قانوناً ہوگا کہ اس کی چان بین ہوسکے اور ایکشن لیا جائے...

مشال کا سوال


ﺟﺎﻭﯾﺪ ﺑﻠﻮﭺ ,13 2018
ﺧﺼﻮﺻﯽ ﺣﺎﻝ
ﺟﺎﻭﯾﺪ ﺑﻠﻮﭺ
ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﮔﯿﺮﯾﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ .
ﺍﺏ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ؟
ﺟﯿﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮨﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﮨﮯ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﮐﺎﻡ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﮨﮯ؟
ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﮔﯿﺮﯾﮟ ﺑﻨﺎﻧﺎ !
ﻧﮩﯿﮟ ﺟﯽ .…
ﻭﮦ ﮨﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﺎ، ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﺳﻮﭼﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﻮ ﮐﺮﻧﺎ، ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺱ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﻣﺜﻼً ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺯﮨﺮ ﭘﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺟﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ .
ﺳﻮﺍﻝ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺎﺕ، ﮐﺒﮭﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺗﺎﻟﮯ ﺳﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ، ﺍﮔﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺗﺎﻟﮧ ﻟﮕﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻋﺒﺮﺕ ﻧﺎﮎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﻤﺮﻭﺩﯼ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮐﺎﺭ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺟﻮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ .
ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﺎﻝ ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﯾﻌﻨﯽ 13 ﺍﭘﺮﯾﻞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺶ ﮔﺎﮦ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﮯ، ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﭩﯿﻔﻦ ﮨﺎﮐﻨﮓ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﻭﺳﻌﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺍﺯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺟﮕﮧ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ .… ﻣﮕﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﻮ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮧ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟﻻﺗﮯ . ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺷﮩﺮﺕ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺭﺟﻨﻮﮞ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﻤﺎ ﺩﺭﻧﺪﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪﻭﻕ، ﺗﺨﺘﮯ، ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﮭﺮ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﻣﺮﺩﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﻟﯽ ﺧﺎﻥ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﺰ ﮨﺎﺳﭩﻞ ﻣﯿﮟ ﮔُﮭﺲ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺫﮨﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ، ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ، ﮔﮭﺴﯿﭧ ﮐﺮ، ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﺮ ﭘﻮﺭ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ، ﺑﮯ ﻋﻘﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺫﮨﻨﻮﮞ، ﻣﺬﮨﺒﯽ ﭘﺎﻟﺘﻮ ﻣﮩﺮ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻡ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻃﻠﺒﺎ ﺗﻨﻈﯿﻤﯽ ﮐﺎﺭﮈ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮈﺭ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻑ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ‏( ﺍﺱ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮ ﻗﺒﺮ ﮐﺎ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺣﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﺰﺍ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ‏) ﺧﻮﺩ ﺧﺪﺍ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﮔﮭﺎﭦ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﺷﮩﯿﺪ ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ .
ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ، ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﻎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺷﻌﻮﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺳﺘﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﺩﺍﺭ ﺗﻮﮨﯿﻦِ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﮐﮭﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺫﮨﻦ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮐﻮﺷﺶ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻕ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺣﺮﻣﺘﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺘﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻭﺍﭘﺲ ﻻﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻓﺨﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩِﮐﮭﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ .
ﺟﻮ ﺟﺴﻢ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺑﻘﻮﻝ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺎﻣﺮﯾﮉ ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﮐﮧ " ﯾﮧ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻭ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﮨﮯ ، ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﯾﮯ ﻣﺖ، ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﮟ ”.
ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﻧﺎﮞ ﺟﻮ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮨﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﺱ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﺎ ﺩﺷﻤﻦ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﻣﺎﻍ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ
ﺗﺆ ﭘﮧ ﺳﺮﺍﻧﯽ ﮔُﮉﮒﺀَ ﺯﻧﺪﺀِ ﮬﯿﺎﻻﻧﺎﮞ ﮐُﺶ ﺋﮯ
ﭘُﻼﻧﺎﮞ ﭼﻮﻥ ﺩﺍﺷﺖ ﮐﻦ ﺋﮯ ﭘﮧ ﺑﻮﮦ ﺗﺎﻻﻧﯽﺀَ
‏( ﺗﻢ ﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻗﻠﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻭﮔﮯ؟،
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺭﻭﮐﻮﮔﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﺳﮯ ‏)
ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﺸﺎﻝ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺯﻧﺪﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﻣﻌﻠﻮﻡ ﻻﺵ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﻭﮦ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻣﻨﮉﯾﻼ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﺮﯾﮉ ﭼﮯ ﮔﻮﯾﺮﺍ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﺎ ﻗﻮﻣﯽ ﻟﺴﺎﻧﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯿﺮﻭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺎﺋﺪ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺳﺮﮐﻞ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻗﺎﺋﺪ ﮐﯿﺴﺎ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺳﯿﭩﮫ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺣﺞ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺣﺎﺟﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﮍﮬﯽ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﻟﮧ ﭼﺎﻭﻝ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﭘﺎﻧﭻ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﺮﻡ، ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﻼﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﮐﻮ ﺑﻼﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﯿﻮﮞ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﺐ ﮨﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﯾﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻨﺪﻭﺯ ﮐﮯ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﮮ ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﮐﮯ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﻭﮦ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺗﻮﮨﯿﻦ، ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﺩﺍﺭ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮔﺮ ﺟﻨﺎﺏ ﺧﻮﺩ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺣﻠﯿﻒ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ، ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ، ﺍﭘﻨﯽ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﮐﯽ ﻧﺎﺍﮨﻠﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﻨﯽ ﮐﮧ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﻧﻤﺎ ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﺎ ﻣﺠﺮﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮐﮭﺎ .
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﮑﺴﯿﻢ ﮔﻮﺭﮐﯽ ﮐﮯ " ﻣﺎﮞ ” ﻧﺎﻭﻝ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﮈﺍﺋﯿﻼﮒ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺎﺍﮨﻠﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﮔﺴﺘﺎﺥ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﻧﺎﻭﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻭﯾﻞ ﻭﻻﺳﻮﻑ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ :
" ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﻣﻨﺪ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ، ﺟﻦ ﭘﺮ ﺗﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ ﮨﻮ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮈﻧﮉﮮ ﮐﮯ ﺯﻭﺭ ﭘﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﮬﻤﮑﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ”.
" ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﻣﺴﺦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﻼﻑ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﻼﻑ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ . ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﮞ، ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ . ﻟﮩٰﺬﺍ ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ . ﻧﮧ ﮐﮧ ﺟﻨﮕﻠﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ! ﭼﺮﭺ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﻑ ﻧﺎﮎ ﭼﮭﺎﭘﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ . ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ! ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ؛ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ ! ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ، ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺑﮕﺎﮌ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ ”.
ﻣﺸﺎﻝ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺑﺪﻗﺴﺘﻤﺘﯽ ﺳﮯ ﺻﺤﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﺷﻌﺒﮯ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﮩﺖ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ..…
ﺧﯿﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺟﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﺮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻋﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﻻﺟﮏ ﺳﮯ ﺍﻟﺮﺟﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﻣﻌﺎﺷﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺭﮨﮯﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﭼﻨﺪ ﻟﻮﮒ ﻋﻘﻞ ﮐﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻣﺸﺎﻝ ﮐﮯ ﺑُﺠﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺻﺮﻑ ﭼﻨﺪ ﻣﻮﻡ ﺑﺘﯿﺎﮞ ﮨﯽ ﺟﻼﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺘﻢ ﺷﺪ .
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺩﯼ ﺍﯾﻨﮉ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﻋﻘﻞِ ﺳﻠﯿﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻕ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﻮ ﻣﺸﺎﻝ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ  ﺳﻮﺍﻝ


ﺟﺎﻭﯾﺪ ﺑﻠﻮﭺ
ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﺮﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﮔﯿﺮﯾﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ .
ﺍﺏ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ؟
ﺟﯿﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﮨﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﮨﮯ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﮐﺎﻡ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﮨﮯ؟
ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﮔﯿﺮﯾﮟ ﺑﻨﺎﻧﺎ !
ﻧﮩﯿﮟ ﺟﯽ .…
ﻭﮦ ﮨﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﺎ، ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﺳﻮﭼﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﻮ ﮐﺮﻧﺎ، ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﺱ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﻣﺜﻼً ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺳﻘﺮﺍﻁ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺯﮨﺮ ﭘﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺟﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ .
ﺳﻮﺍﻝ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺫﺍﺕ ﭘﺎﺕ، ﮐﺒﮭﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺗﺎﻟﮯ ﺳﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ، ﺍﮔﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺗﺎﻟﮧ ﻟﮕﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻋﺒﺮﺕ ﻧﺎﮎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﻤﺮﻭﺩﯼ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮐﺎﺭ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺟﻮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ .
ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﺎﻝ ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﯾﻌﻨﯽ 13 ﺍﭘﺮﯾﻞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺶ ﮔﺎﮦ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﮯ، ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﭩﯿﻔﻦ ﮨﺎﮐﻨﮓ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﻭﺳﻌﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺍﺯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺟﮕﮧ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ .… ﻣﮕﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﻮ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﮧ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟﻻﺗﮯ . ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺷﮩﺮﺕ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺭﺟﻨﻮﮞ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﻤﺎ ﺩﺭﻧﺪﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪﻭﻕ، ﺗﺨﺘﮯ، ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﮭﺮ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﻣﺮﺩﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﻟﯽ ﺧﺎﻥ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﮯ ﺑﻮﺍﺋﺰ ﮨﺎﺳﭩﻞ ﻣﯿﮟ ﮔُﮭﺲ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺫﮨﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ، ﮐﮭﯿﻨﭻ ﮐﺮ، ﮔﮭﺴﯿﭧ ﮐﺮ، ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﺮ ﭘﻮﺭ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ، ﺑﮯ ﻋﻘﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺫﮨﻨﻮﮞ، ﻣﺬﮨﺒﯽ ﭘﺎﻟﺘﻮ ﻣﮩﺮ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻡ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﺎ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻃﻠﺒﺎ ﺗﻨﻈﯿﻤﯽ ﮐﺎﺭﮈ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮈﺭ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻑ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ‏( ﺍﺱ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮ ﻗﺒﺮ ﮐﺎ ﻋﺬﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺣﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﺰﺍ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ‏) ﺧﻮﺩ ﺧﺪﺍ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﮔﮭﺎﭦ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﺷﮩﯿﺪ ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ .
ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ، ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﻎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺷﻌﻮﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﺳﺘﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﺐ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﺩﺍﺭ ﺗﻮﮨﯿﻦِ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﮐﮭﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺫﮨﻦ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮐﻮﺷﺶ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺳﻼﻣﺘﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻕ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺣﺮﻣﺘﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺘﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻭﺍﭘﺲ ﻻﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﻭﯾﮉﯾﻮ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻓﺨﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩِﮐﮭﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ .
ﺟﻮ ﺟﺴﻢ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﺗﮭﺎ، ﻭﮦ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺑﻘﻮﻝ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺎﻣﺮﯾﮉ ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﮐﮧ " ﯾﮧ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﻭ ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﮨﮯ ، ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺎﺭﯾﮯ ﻣﺖ، ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﮟ ”.
ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﻧﺎﮞ ﺟﻮ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﮨﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﺱ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﺎ ﺩﺷﻤﻦ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﻧﮧ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﻣﺎﻍ، ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ
ﺗﺆ ﭘﮧ ﺳﺮﺍﻧﯽ ﮔُﮉﮒﺀَ ﺯﻧﺪﺀِ ﮬﯿﺎﻻﻧﺎﮞ ﮐُﺶ ﺋﮯ
ﭘُﻼﻧﺎﮞ ﭼﻮﻥ ﺩﺍﺷﺖ ﮐﻦ ﺋﮯ ﭘﮧ ﺑﻮﮦ ﺗﺎﻻﻧﯽﺀَ
‏( ﺗﻢ ﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻗﻠﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻭﮔﮯ؟،
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺭﻭﮐﻮﮔﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﺳﮯ ‏)
ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﺸﺎﻝ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺯﻧﺪﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﻣﻌﻠﻮﻡ ﻻﺵ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﻭﮦ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻣﻨﮉﯾﻼ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﺮﯾﮉ ﭼﮯ ﮔﻮﯾﺮﺍ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﺎ ﻗﻮﻣﯽ ﻟﺴﺎﻧﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯿﺮﻭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﺎﺋﺪ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺳﺮﮐﻞ ﻭﺍﻟﮯ ﮔﺎﻟﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻗﺎﺋﺪ ﮐﯿﺴﺎ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺳﯿﭩﮫ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺣﺞ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺣﺎﺟﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﮍﮬﯽ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﻟﮧ ﭼﺎﻭﻝ ﺑﯿﭽﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﭘﺎﻧﭻ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﺮﻡ، ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﻼﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﮐﻮ ﺑﻼﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﯿﻮﮞ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﺐ ﮨﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﯾﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻨﺪﻭﺯ ﮐﮯ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﮮ ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﮐﮯ ﮔﺮﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﻭﮦ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺗﻮﮨﯿﻦ، ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﺩﺍﺭ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﮔﺮ ﺟﻨﺎﺏ ﺧﻮﺩ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﺮﯾﻒ ﺍﻭﺭ ﺣﻠﯿﻒ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ، ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ، ﺍﭘﻨﯽ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﮐﯽ ﻧﺎﺍﮨﻠﯽ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﻨﯽ ﮐﮧ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﻧﻤﺎ ﺧﻮﺩ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﺎ ﻣﺠﺮﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮐﮭﺎ .
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻘﺎﺻﺪ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﮑﺴﯿﻢ ﮔﻮﺭﮐﯽ ﮐﮯ " ﻣﺎﮞ ” ﻧﺎﻭﻝ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﮈﺍﺋﯿﻼﮒ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺸﺎﻝ ﺧﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﺁﺩﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺎﺍﮨﻠﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﮔﺴﺘﺎﺥ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﻧﺎﻭﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻭﯾﻞ ﻭﻻﺳﻮﻑ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ :
" ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﻣﻨﺪ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ، ﺟﻦ ﭘﺮ ﺗﻢ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ ﮨﻮ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮈﻧﮉﮮ ﮐﮯ ﺯﻭﺭ ﭘﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﮬﻤﮑﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ”.
" ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﻣﺴﺦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﻼﻑ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﻼﻑ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ . ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﮞ، ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ . ﻟﮩٰﺬﺍ ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ . ﻧﮧ ﮐﮧ ﺟﻨﮕﻠﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ! ﭼﺮﭺ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﻑ ﻧﺎﮎ ﭼﮭﺎﭘﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ . ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ! ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ؛ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ ! ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ، ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺑﮕﺎﮌ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ ”.
ﻣﺸﺎﻝ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺑﺪﻗﺴﺘﻤﺘﯽ ﺳﮯ ﺻﺤﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﺷﻌﺒﮯ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﮩﺖ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ..…
ﺧﯿﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺟﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﺮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻋﻘﻞ ﺍﻭﺭ ﻻﺟﮏ ﺳﮯ ﺍﻟﺮﺟﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﻣﻌﺎﺷﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺭﮨﮯﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﭼﻨﺪ ﻟﻮﮒ ﻋﻘﻞ ﮐﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﮐﮭﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﮨﺮ ﻣﺸﺎﻝ ﮐﮯ ﺑُﺠﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺻﺮﻑ ﭼﻨﺪ ﻣﻮﻡ ﺑﺘﯿﺎﮞ ﮨﯽ ﺟﻼﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺘﻢ ﺷﺪ .
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺩﯼ ﺍﯾﻨﮉ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﻋﻘﻞِ ﺳﻠﯿﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻕ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﻮ ﻣﺸﺎﻝ ﮐﺎ ﺳﻮﺍﻝ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ
بشکریہ حال احوال

الیکشن! ایک نفسیاتی بیماری؟

جاویدبلوچ
@JavedGwadari

"یار اکیس سے چُٹھیاں شروع ہورہی ہیں اب بندہ پریشان ہے کہ جائے یا نہ جائے اِدھر تو ہاسٹل سے ہمیں گسھیٹ کر نکالا جائے گا اور اُدھر تو جنگِ عظیم چڑھی ہوگی"
پیشانی پر بل بناتے ایک بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ
"ہاں یار بندہ پریشان ہے، کل گھر بات ہوئی بتا رہے تھے کہ ہیرونک میں ایک اسکول جلایا گیا ہے، ادھر مستونگ سانحہ میں شہادتیں اب تک بڑھ رہی ہیں"
یہ دو طالبعلم الیکشن کے حوالے سے کینٹین میں بیٹھے عام سی گفتگو کررہے تھے،
الیکشن کسی بھی ملک کیلیے انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں، انہی کی وجہ سے جمہوریت کا نظام تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور ہر بالغ شہری اپنے حق رائے دہی کی استعمال کیلیے بے چین ہوتا ہے
پچھلے پانچ سالا کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے سامنے کئی سیاسی جماعتوں کی صورت میں مختلف امیدوار، مختلف نظریات اور منشوروں کے ساتھ عوام کے روبرو کھڑے ہوجاتے ہیں اُن کی ووٹ لیکر اُنھیں طاقت کا سرچشمہ سمجھ کر اُن کی جان، مال، رہائش و روزگار اور تمام ضروریات کو پورا کرنے کا وعدہ کرکے قانون ساز اسمبلی تک پہنچتے ہیں...
کتابوں میں ایسا ہی لکھا ہے مگر ہم جس خطے میں رہتے ہیں یہاں الیکشن ایک ذہنی دباؤ، ایک بےچینی اور اذیت ناک مرحلہ ہے
خصوصاً نوجوانوں کیلیے یہ کرب زدہ مدت کھٹنے کو نہیں کٹھتی اور نہ وہ کھل کر اس کے متعلق کچھ بول سکتے ہیں اور نہ ہی اندر ہی اندر نفسیاتی طورپر خود کو پریشانی کی سمندر میں ڈبونا چاہتے ہیں، زرا آس پاس دیکھ کر صرف اپنی اس (الیکشن) سے پیدا ہونے والی نفسیاتی مرض کا احتراف کرتے ہیں بس...
یہ مسئلے گزشتہ بے روزگاری، قلت آب، بجلی کی بندش، وی آئی پی پروٹوکول، ناکس معیار تعلیم، مذہبی جنونیت اور اظہار رائے کی گٹھن کے ساتھ ایک اور پیکج کی طرح مل جاتا ہے
وہی چہرے جو کرپشن کی داغ سے سیاہ ہیں، وہی وعدے جو قوم پرستی اور مذہبی ڈرامے کے ساتھ بے انجام پورا نہ ہوسکے اور ان کے وہی آقاء جو انھیں لاتے، ملاتے، لڑاتے اور پھر چُڑاتے......
وہ نوجوان جو گھر سے باہر اپنے علاقے میں یا تو خود پریشانی کی عالم میں "مالِ آسان دستیاب" لگا دم مٹا غم میں گرفتار ہوکر بوڑھے ماں باپ کیلیے غم کا ایک مزید بوجھ بن جاتا ہے یا محض ایک تصویر بن کر کسی پریس کلب کے سامنے پڑا رہتا ہے
وگر نہ کسی دوسرے شہر میں حصول علم کیلیے نکل کر الیکشن کی چھٹیوں میں اپنے گھر جانے پریشان رہتا ہے

اگر ایک نوجوان گھر جائے اور ووٹ نہ دے تو مکار کاروباری ٹولوں سے کیسے دور رہ سکتا ہے جو خود اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کیلیے قبائلی فرسودہ رواجات کو سامنے رکھ کر کسی ایک خاندان کے سربراہ کو محض چند لمحوں کیلیے گھر آکر چالاک باتوں سے بلیک میل کرکے اس کے زیر کفالت یا زیر اثر پورے خاندان کی ووٹ ہڑپ کرلے جائیں
اس خاندان کے نوجوانوں کو یہ لاکھ پتہ ہو کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق میں یہ طریقہ کار انتخابی بدعنوانی تصور کی جاتی ہے مگر کیا جو شخص خود الیکشن میں امیدوار ہے اسے نہیں پتہ؟
ایک نوجوان کیونکر مسئلہ کشمیر جیسے متنازعہ سوالات نہ سوچھے جب وہ آس پاس کے سب ہی شخصیات بضرورت سیاسی جماعتوں سے ٹکٹ کی خاطر جڑے ہوئے وڈیرے، ملا، میر اور سرداروں کی انتخابی مہم میں الیکشن کمیشن کے مطابق عورتوں کو مساوی مواقع دینا تو دور اب تک اس بات پہ مطمئن نہ ہوں کہ وہ لوگ جن کے گھر کی عورتیں جسے ووٹ دے کر آتی ہیں اُس نمائندے کی اپنے گھر کی عورتیں ووٹ کاسٹ کرنے جاتی ہیں بھی کہ نہیں؟
 کیونکہ وہ اچھے گھروں کی عورتیں تصور کی جاتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں کون عورتیں اچھی ہیں اس کا فیصلہ عورتیں نہیں کرتھیں
عام ووٹر کی ماں بہن تو روز پانی کی تلاش میں گھر گھر مٹکا اٹھائے پرتی ہے

ایک نوجوان اپنے ضمیر کو مار کر بھاری بھرکم اسحلہ سے لیسدار سیکیورٹی اور کالی شیشوں والی ائیرکنڈیشن گاڑی سے اترتے ہوئے اس شخص کو کیسے  اپنا نمائندہ سمجھے جو اپنے ہی جلسے میں آئے ہوئے اپنے ووٹرز سے ڈرتا ہو...
ایک نوجوان کیونکر نفسیاتی بیمار نہ ہو جب وہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کو پڑھ کر آس پاس کے امیدواروں کو اس کے ساتھ بد اخلاقی کرتے ہوئے دیکھے
ایسے معاشرے میں جہاں نوجوان کو طلبہ یونینز اور اسٹیڈی سرکل کی اجازت نہیں مگر نام نہاد طلبہ تنظیم کی اجازت ہو جو کسی سیاسی پارٹی(وہ بھی وزارت کی خاطر) کی چھوٹو گینگ اور مسقبل کے ٹیکہدار ہوں وہ سیاسی سوچھ پیدا کیسے کرینگے؟
اس وقت معاشرے کے نوجوان دو گروپس میں ہیں مگر دونوں بیمار ہیں ایک چمچہ گری کی مرض میں مبتلا ہیں اور دوسری ذہنی دباؤ کی مرض میں
دونوں کو بے صبری سے انتظار ہے الیکشن کا کہ کیسے بھی کرکے یہ ڈرامے ختم ہوں پھر شاید ایک گروپ کو معاوضہ ملے اور دوسرے کو تھوڑی سی ذہنی سکون....

Sunday 15 July 2018

Abdul Hai: A Talented Photographer - http://balochistanvoices.com/2017/09/abdul-hai-talented-photographer/

Abdul Hai: A Talented Photographer - http://balochistanvoices.com/2017/09/abdul-hai-talented-photographer/

Haalhawal, a non troditional journalism


By Javed MB Baloch
Check out Javed Baloch (@JavedGwadari):https://twitter.com/JavedGwadari?s=09

commenly when we hear the word "journalism" then immediately  the newspapers, radio, tv and internet come in our minds, which are truly medium through them we are aware about the journalism but these are traditional journalism commen all over the world,
locally many terms and methods are used for this and one of them is "Haalhawal" which is now strong part of the culture in Balochistan, if two or more than two people meet with each others and don't perform the activity of "Haalhawal" so they don't be remembered with good words,
basically the purpose of "Haalhawal" is to share all of those news which you have listened, watched, and felt in your journey and be aware of thos all situation happened in your absence,
it has a particular method, rules and words which aren't ignorable at any cost,
it starts with the greetings and the word of "vsh aathky" or "Babu khaerat" mean "welcome" after it a long conversation start between host and guest with basic rules of it and  questions and answers ,
like host starts  with welcome and guest answers  thank you with applauses and prays, then host thanked to God with holy names and  again aske to guest "Haal kan" mean "share" with this question guest stars a long and continusally speech thanking and admiring to God, he shares every news before host like from where he is coming?, when he left?, how he traveled?, how was the journey?, whom he saw at way?, how was weather?, who met him?, how was the situation of that place?, how was the way?, every thing which is related to the journey, area from where he is coming, and people and situation from his first step to the last step of host's home,
It has some very important rules or method of it are that if a guest  cames and many people sitting then this activity will be start by the person who is elder or senior in "deewan"(group sitting) ,

if two persons meet at the way then it's the duty of that person who is riding or driving not on foot one,
as we know that we are in the society of tribalism and here women are not much engaged with men but if there is no men present in home where guest arrives so this duty would be performed by senior women too,
Caring about ethics are so necessary for it like no lies, over self bravness and bad mouthing others are considered bad,
Because of this activitiy society get awareness of situation, news regarding different areas where they may not visited for long time, about the people and weather of that area, 

and one of most best is to build confident of speaking and reminding the memories,

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...