Contact Form

Name

Email *

Message *

Thursday 29 March 2018

ﺁﺋﯿﮉﯾﻞ ﻃﻠﺒﺎ ﺗﻨﻈﯿﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﻓﻘﺪﺍﻥ

ﺟﺎﻭﯾﺪ ﺑﻠﻮﭺ
ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ؟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﺟﺪﯾﺪ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺎﺋﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ؟ ﯾﮧ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺩﺭﺱ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﺭﺩِ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﭨﮭﮩﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ .
ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎﭘﺴﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﮔﺮﻭﭘﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﺑﻂ ﭘﺮ ﭘﮑﮍﮮ ﮔﺌﮯ ﮐﭽﮫ ﭘﺮﻭﻓﯿﺴﺮﺯ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻣﻌﮧ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﺋﺲ ﭼﺎﻧﺴﻠﺮ ﮐﺎ ﺍﻧﭩﺮﻭﯾﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺑﮍﺍ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ " ﺁﭖ ﻃﻠﺒﺎ ﮐﻮ ﮐﮭﻞ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮧ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ، ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻇﮩﺎﺭِ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻧﺎﮞ ”.
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﯿﺎ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ؟ ﻃﻠﺒﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺭﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟
ﮨﮯ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ، ﻃﻠﺒﺎ ﺗﻨﻈﯿﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ، ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺁﺝ ﮐﻞ؟
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺍﯾﮏ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﺟﻮﺍﺋﻦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮨﮯ ﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﻌﺮﮮ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﮐﻮﺭﭦ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﻠﻔﯽ ﺍﭖ ﻟﻮﮈ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ، ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺑﺎﺩﯼ ﺑﯿﺎﻥ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﺍﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﻮﻧﯿﺌﺮ ﮐﻠﺮﮎ ﻟﮓ ﺳﮑﻮ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﻢ ﺁﺑﺎﺩ ﺿﻠﻊ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺪﺩ ﻟﻮﮐﻞ ﺑﻨﻮﺍ ﺳﮑﻮ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﮐﺎﻡ ﺍِﺱ ﺩﻓﺘﺮ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﺩﻓﺘﺮ ﺗﮏ …
ﺗﻮ ﻃﻠﺒﺎ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﮐﻮ ﺟﻮﺍﺋﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ !!
ﯾﮧ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ . ﺍﮔﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﭨﮭﯿﮑﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻧﻮﮐﺮﯾﺎﮞ ﺑﭻ ﮔﺌﯿﮟ ﺗﻮ ﺟﮯ ﻭﯼ ﭨﯽ ﻟﮓ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﺑﮭﯽ ﺍُﭨﮭﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﮔﺮﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﮨﺎﮞ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺑﻌﺪ ﺳﺮﮐﻞ ﭘﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﭼﮑﺮ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﺮﮐﻞ ﻭﺍﻟﮯ ﻗﺎﺋﺪ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻧﮧ ﮔﺮﺍ ﺩﯾﮟ، ﺍﻭﺭ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺩﮬﺮ ﺑﮍﮮ ﭘﮭﮉﮮ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﭽﮫ ﺳﯿﮑﮫ ﺟﺎﺅﮔﮯ، ﭨﯿﻨﺸﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﻨﺎ، ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﮈﭘﺎﺭﭨﻤﻨﭧ ﮐﺎ ﭼﯿﺌﺮﻣﯿﻦ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ، ﻧﻤﺒﺮﺯ ﺩﻟﻮﺍ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ، ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮯ ﺗﻮ ..…
ﺍﮔﺮ ﻃﻠﺒﺎ ﺗﻨﻈﯿﻤﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻨﺸﻮﺭ، ﻧﻈﺮﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﮉﮦ ﺳﺮﮐﻞ ﻣﯿﮟ ﺳﺘّﺮ ﺳﺎﻟﮧ ﮐﺴﯽ ﮔﻮﻧﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﭙﮑﯽ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﭘﺮ ﻣﻌﻤﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﻭﮐﺎﻟﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮉﺭﺷﭗ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮﻧﯿﺌﺮ ﮐﻠﺮﮎ، ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﭨﮭﯿﮑﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﺁ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻟﯿﮉﺭ ﺷﭗ ﺗﻮ ﮐﻞ ﺍُﺱ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺣﻠﻘﮯ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﻮﺩﺳﺎﺧﺘﮧ ﺧﺪﺍﺋﯽ ﺍﻟﮩﺎﻡ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﻗﺎﺋﺪ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺟﯿﺖ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍُﺳﯽ ﺣﻠﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﻞ ﺍﻟﯿﮑﺶ ﻟﮍﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﭺ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .
ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺳﺮﮐﻞ ﮐﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﮕﻮﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﺭﺗﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮐﺴﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﮐﯽ ﻭﺭﺍﺛﺘﯽ ﺟﺎﮔﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﮐﯽ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﻨﮩﯿﺎ ﮐﻤﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﭘﺮ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﺮﮮ؟
ﯾﺎ ﻻﭘﺘﮧ ﻃﻠﺒﺎ ‏( ﻧﺎﮞ ﺑﺎﺑﺎ ‏) ﭘﮭﺮ ﮈﯾﺮﮦ ﻏﺎﺯﯼ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻃﻠﺒﺎ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﺮﻧﺎ ﺩﮮ؟
ﯾﺎ ﻣﻼﻟﮧ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﻭﭦ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﺩﯼ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻭﺯﺍﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﯿﭧ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻼﻟﮧ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﺮ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﯿﺘﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺗﮯ ﺭﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﺷﮑﺴﺖ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﮯ .
ﺍﮔﺮ ﺍﯾﻢ ﭘﯽ ﺍﮮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺟﻠﺴﮯ ﮐﻮ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﻢ ﭘﯽ ﺍﮮ ﮐﮯ ﻃﻠﺒﺎ ﻓﻨﮉﺯ ﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮﯾﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺳﮯ ﻻﯾﺎﻓﺘﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﺩﯾﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﮐﺎﻣﺮﯾﮉ ﭼﮯ ﮔﻮ ﻭﯾﺮﺍ ﮐﯽ ﭨﻮﭘﯽ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﯾﺎ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻣﻨﮉﯾﻼ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﻓﺎﺋﻞ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﮐﺴﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﮐﯽ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮐﮧ ﺑﮭﺌﯽ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺁﺱ ﮐﮯ ﻧﮧ ﭘﺎﺱ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﻟﯿﮉﺭ ﺟﺐ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﺎﺋﺪ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺳﺮﮐﻞ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺑﻨﺎﻡ ﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ؟
ﺍﻭﺭ ﺳﺮﮐﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﺑﯿﺎﻧﺎﺕ ﺗﻮ ﺭﭨﺎ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﮐﺎ ﻣﻨﺸﻮﺭ ﮐﺘﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ؟
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻃﻠﺒﺎ ﺗﻨﻈﯿﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﮯ ﮐﮧ،
* ﺗﺎﮐﮧ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﮯ، ﻣﮕﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﭘﻮﺟﺎ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﭼﮭﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﭘﮭﺮ ﺗﻮ ﺿﻤﯿﺮ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﮔﺎ .
* ﺍﭘﻨﯽ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﮑﮭﺎﺭﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺗﻮ ﻭﮐﺎﻟﺖ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﯾﮕﺰﯾﭧ .
* ﭨﯿﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﺎ، ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺳﭻ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺣﺮﻭﻑِ ﺗﮩﺠﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﺑﺮﺍﻧﭻ ﻻﻧﭻ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﯽ .
* ﻣﯿﻞ ﺟﻮﻝ ﮐﺎ ﺑﮍﮬﻨﺎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﮑﺎﺗﺐِ ﻓﮑﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ، ﮨﺎﮞ ﯾﮧ ﺗﻮ ﮨﺮ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﮈﻧﮉﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ .
* ﭘﺮﺍﻣﻦ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﻨﺎ، ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﮉﮮ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺗﮯ .
* ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﮯ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ، ﻭﮦ ﺗﺐ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﺐ ﺑﻨﺪﮦ ﻧﺎﭼﯿﺰ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮞ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﮯ .
* ﻟﯿﮉﺭﺷﭗ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﮐﺎ ﺳﯿﮑﮭﻨﺎ، ﺍﮔﺮ ﻟﯿﮉﺭ ﺷﭗ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﯿﮑﮫ ﻟﯽ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﻋﻤﺮ ﺭﺳﯿﺪﮦ ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺗﮏ ﻗﺎﺋﺪ ﺟﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﺩﮮ ﮔﺎ ﮐﻮﺋﯽ؟
* ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﻧﺎ، ﭘﮭﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﺮﮮﮔﺎ؟ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﺭﻭﺍﺝ ﮨﮯ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﮐﮧ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻣﻨﭧ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﺻﺎﺣﺐ ﺗﺐ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ .
* ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮﻧﺎ، ﺍﮔﺮ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﮯ؟ ﻃﺒﻘﺎﺗﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﮦ ﻓﺎﺵ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﺎ؟
ﺧﯿﺮ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﮨﻢ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﻈﺮﯾﺎﺗﯽ ﺳﻮﭺ ﭘﮧ ﮨﯽ ﻣﮩﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭼﮭﺎ ﻃﺎﻟﺐ ﻋﻠﻢ ﺍﯾﻨﭩﯽ ﭘﺎﻟﯿﭩﮑﺲ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺳﻮﭺ ﻃﺒﻘﺎﺗﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﺎ ﺧﺎﺗﻤﮧ ﺍﻭﺭ ﻃﻠﺒﺎ ﺗﻨﻈﯿﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﯾﺎ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﻭﮦ ﺍﻓﺴﺎﻧﻮﯼ ﮨﯽ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﻭﮦ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ .
ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﺭﭺ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﻠﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﻃﻠﺒﺎ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺩﮐﮭﺎ ﺳﮑﻮﮞ ﮔﺎ
بشکریہ حال احوال

Wednesday 21 March 2018

مارچ22 پانی کا نہیں، پیاس کا دن

Check out Javed Baloch (@JavedGwadari): https://twitter.com/JavedGwadari?s=08
جاوید بلوچ @javedgwadari 


پانی اللہ تعالی کی ایک انمول نعمت اور رحمت ہے جو نہ صرف زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے بلکہ انسان کی تاریخ معاش اور ماحول سمیت اس وقت ہم جس خطے میں رہ رہے ہیں یہاں  دنیا کی ایک بڑی پروجکٹ کا تعلق برائے راست اسی سے ہے، انسان نے اپنی بقاء کیلے اور اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلے شروع ہی سے پانی کے قریب آبادیاں بنانے کی کوشش کی جس میں انسان کی پہلی تہذیبوں میں مصر اور عراق کی تہذیبیں ، مہرگڑھ ، موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں وغیرہ انسانی تہذیبوں کی ارتقاء کی تاریخی، جغرافیائی، معاشی اور چونکہ انسان کو سماجی کہلاتا ہے تو کسی حد تک سیاسی آغاز اور ترقی کا آثار ہیں،
 اور انسان نے جس دن سے سوچھنا پھر مشاہدہ کرنا اور عملی تجربات کے ذریے اپنی لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ سائنس کہلاتا ہے تو سائنسی عمل بھی پانی کی بندھن میں کسی طرح جوڑ گئی،
پھر دنیا میں اب تک کی جاری جنگیں جنھیں شوسلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ کہئیں یا کچھ اور مگر کسی نا کسی طرح ان کو بھی پانیوں تک رسد کی دوڑ ہی کہا جاتا ہے

ان تمام اعمال میں انسان نے تلاش کی پانی کو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان پانی ہی سے مرتا گیا،

اقوام متحدہ ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن مناتی ہے جس کا آغاز دسمبر 1992 کو پہلی دفعہ اقوام متحدہ کی کانفرنس جس کا موضوع ماحول اور ترقی تھا میں قرداد کی صورت میں عمل میں لائی گئی اور طے کیا گیا کہ ہر سال 22 مارچ کو دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جائے گا،
پھر 22مارچ 1993 سے اب تک ہر سال ایک نئے موضوع کے ساتھ یہ دن گزارا جاتا ہے ( منانے کیلے چونکہ تہواریں اور خوشی و غم کے دن ہوتے ہیں جس کو منانے والے مناتے ہیں) اور ہر سال چند فوٹو سیشینز کے ساتھ یہ دن گزر بھی جاتا ہے،
 گزشتہ سال اقوام متحدہ نے اس دن کو پانی اور پائیدار ترقی، پانی اور روزگار اور صاف پانی کی فراہمی وغیرہ وغیرہ کے موضوعات میں گزارا اور اس سال چونکہ پانی کے دن کے مناسبت سے گزشتہ تمام موضوعات پر عمل در آمد ہوگئی تو اب کی بار اقوام متحدہ نے کچھ اور اچھے اچھے موضوعات افسانوی ڈکشنریز سے ڈھونڈ کر لائے ہیںں جن میں  لوگوں کی حوصلوں کو بلند کرنے کیلیے فطرت میں سوالات کے جوابات کو تلاش کرنے کا عظیم کام دیا ہے
 اس کے ساتھ ماحولیاتی نظام کی تحفظ وغیرہ جیسے گرما گرم تقاریری مقابلے والے موضوعات بھی شامل ہیں

خیر نا تو میں کوئی اول دنیا کا ڈونلڈ ٹرمپ ہوں اور نا ہی .........
میری مثال اس مینڈک جیسی ہے جس کی ساری دنیا اس کا کنواں ہے ،
 تو چلیے اپنی اوقات پہ ہی آجاتا ہوں جو پانی کا نام سن کر منہ میں پانی تو نہیں آتا البتہ کسی عمر رسیدہ شخص کے چہرے کی مانند یا میری سرزمین کی خشک تالکاروں کی طرح حلق ضرور جلتا ہے
چونکہ میرا تعلق پانیوں کے بیچ اور پانی ہی سے محروم دھرتی سے ہے اگر یوں کہوں کہ میں پانی کا فرزند پانی سے یتیم شہر کا شہری ہوں پھر شاید آپ کو مجھ پر میری نسل در نسل پر افسوس کرنے میں زیادہ سوچھنا نہ پڑے

اقوام متحدہ تو ہرسال اپنے موضوعات پر یہ دن مناتی ہے مگر میرے شہر گوادر کے ایک سینئر صحافی نے اپنے سوشل میڈیا کے ایک پوسٹ پر اس دن کو روزہ رکھتے ہوئے گزارنے کا مشورہ دیا کیونکہ پانی کا دن تو ہم گوادر والے روز مناتے ہیں کبھی ہماری مائیں بہنیں برتنیں سروں پہ اٹھا کر گھر گھر یا عوام اپنے متعلقہ کونسلر صاحبان کے نمبرز یا ان کے گھروں کے چکر کاٹتے ہوئے یا کوئی چرواہا پانی کی تلاش میں گاؤں گاؤں یا ہمارے ٹینکر ڈرائور حضرات ڈپٹی کمشنر آفس و فلاں فلاں آفس یا ہفتہ دس دن ہر دو تین ماہ بعد احتجاج میں مناتے ہیں

اب جو منانا یا گزارنا باقی رہ گیا ہے وہ روزہ رکھنا ہے، کیونکہ یہ پانی کا مسئلہ ہمارے ہاں  تو کوئی بھی اقوام متحدہ کے موضوعات "پانی اور روزگار" نہ "ماحولیاتی نظام کی تحفظ" اور نا ہی فطرت میں پانی جیسا بھاری موضوعات کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے

ہم تو بس زندہ رہنے کیلیے دو بوند پانی کا سوال کرتے کرتے اپنی بے بسی کا ایک ناکام ثبوت ہی دے سکتے ہیں ،
 قلت آب سے اگر کنواں کھودتے ایک ہی خاندان کے تین تین افراد لقمہ اجل بنتے ہیں تو کیا؟
 سینہ پھر بھی تان کر اونچی آواز میں بولینگے کہ گہرے پانی تو ہمارے ہیں،
اگر سینیٹ کا ڈپٹی چیرمئین مولانا غفور حیدری صاحب انڈسٹریل سٹی حب میں گوادر میں پانی کی قلت پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں تو کیا؟ رہتے تو وہ پھر بھی ڈپٹی ہی ہیں ، کارواٹ پلانٹ کا افتتاع اور پھر افتتاع یوں مختلف اقساط میں گوادر میں پانی کی قلت، ایک نا ختم ہونے والی انڈین ڈرامہ کی شکل میں چلتی رہیگی،

مُلا موسی موڑ پہ دھرنے اور احتجاج میں گوادر کے آل پارٹیز کی آنکھوں میں  بے بسی کی باوجود 2018 کی الیکشن میں دیکھنا جب یہی آل پارٹیز ووٹ مانگنے آئینگے تو اُن کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی نا ہوں تو کہنا،

 جو بھی ہو ہم دنیا سے دوسرے میدانوں میں بھلے پیچھے ہوں مگر پانی کا دن، وہ سال میں ایک دن گزارتے ہیں اور  ہم گوادر میں روز، ہمارے سیاسی  لیڈر ہفتہ وار احتجاجوں میں حاضری کی صورت یا اخباری بیانات کی صورت اور وفاقی و صوبائی وزرا ماہانہ مختلف افتتاعوں کی صورت فائو اسٹار ہوٹلوں میں سال بھر مناتے رہتے اور خوب مناتے رہتے ہیں

کبھی کبھار تو ٹینکر مالکان کو معاوضوں کی عدم ادائیگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جناب والیٰ نے پیسوں کو اپنے اکاؤنٹ میں سیونگ کیلیے رکھا ہے اور انتظار کررہا ہے کہ کب بارشیں ہوں اور کچھ لے دے کے اکاؤنٹ کو محفوظ ہی رہنے دیا جائے مگر چالاک بادل بھی شاید سیونگ کا ہنر سیکھ چکے ہیں
 خیر پانی کا دن کیا اگر کوئی عشرہ بھی منائے تو ہم سے آگے نہیں جا سکے گا،

اب زرا پھر اوقات سے نکل کر ایک مفت کا مشورہ دیتا جاؤں مجھے پتہ ہے میڈیا کو اشتہارات اور سیاستدانوں کو جوتے کھانے سے فرست نہیں جو یہ دن یاد رکھیں مگر کچھ غیر ملکی فنڈڈ این جی اوز شاید یہ دن منائیں تو اگر کوئی پروگرام منارہے ہو تو فوٹوز کیلیے ہی سہی اسکول کے طلباء کو پڑھنے دو پلیز آگاہی پروگرامز کیلیے ضلعی پبلک ایلتھ کے آفیسروں کو بلاؤ شاید کچھ سیکھ جائیں آپ کا بھی بھلا ہوگا اور پانی کا نا سہی مگر پیاس کا دن تو منایا جائے گا وہ بھی احساس کے ساتھ.

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...