Check out Javed Baloch (@JavedGwadari): https://twitter.com/JavedGwadari?s=08
جاوید بلوچ @javedgwadari
پانی اللہ تعالی کی ایک انمول نعمت اور رحمت ہے جو نہ صرف زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے بلکہ انسان کی تاریخ معاش اور ماحول سمیت اس وقت ہم جس خطے میں رہ رہے ہیں یہاں دنیا کی ایک بڑی پروجکٹ کا تعلق برائے راست اسی سے ہے، انسان نے اپنی بقاء کیلے اور اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلے شروع ہی سے پانی کے قریب آبادیاں بنانے کی کوشش کی جس میں انسان کی پہلی تہذیبوں میں مصر اور عراق کی تہذیبیں ، مہرگڑھ ، موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تہذیبیں وغیرہ انسانی تہذیبوں کی ارتقاء کی تاریخی، جغرافیائی، معاشی اور چونکہ انسان کو سماجی کہلاتا ہے تو کسی حد تک سیاسی آغاز اور ترقی کا آثار ہیں،
اور انسان نے جس دن سے سوچھنا پھر مشاہدہ کرنا اور عملی تجربات کے ذریے اپنی لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ سائنس کہلاتا ہے تو سائنسی عمل بھی پانی کی بندھن میں کسی طرح جوڑ گئی،
پھر دنیا میں اب تک کی جاری جنگیں جنھیں شوسلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ کہئیں یا کچھ اور مگر کسی نا کسی طرح ان کو بھی پانیوں تک رسد کی دوڑ ہی کہا جاتا ہے
ان تمام اعمال میں انسان نے تلاش کی پانی کو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان پانی ہی سے مرتا گیا،
اقوام متحدہ ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن مناتی ہے جس کا آغاز دسمبر 1992 کو پہلی دفعہ اقوام متحدہ کی کانفرنس جس کا موضوع ماحول اور ترقی تھا میں قرداد کی صورت میں عمل میں لائی گئی اور طے کیا گیا کہ ہر سال 22 مارچ کو دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جائے گا،
پھر 22مارچ 1993 سے اب تک ہر سال ایک نئے موضوع کے ساتھ یہ دن گزارا جاتا ہے ( منانے کیلے چونکہ تہواریں اور خوشی و غم کے دن ہوتے ہیں جس کو منانے والے مناتے ہیں) اور ہر سال چند فوٹو سیشینز کے ساتھ یہ دن گزر بھی جاتا ہے،
گزشتہ سال اقوام متحدہ نے اس دن کو پانی اور پائیدار ترقی، پانی اور روزگار اور صاف پانی کی فراہمی وغیرہ وغیرہ کے موضوعات میں گزارا اور اس سال چونکہ پانی کے دن کے مناسبت سے گزشتہ تمام موضوعات پر عمل در آمد ہوگئی تو اب کی بار اقوام متحدہ نے کچھ اور اچھے اچھے موضوعات افسانوی ڈکشنریز سے ڈھونڈ کر لائے ہیںں جن میں لوگوں کی حوصلوں کو بلند کرنے کیلیے فطرت میں سوالات کے جوابات کو تلاش کرنے کا عظیم کام دیا ہے
اس کے ساتھ ماحولیاتی نظام کی تحفظ وغیرہ جیسے گرما گرم تقاریری مقابلے والے موضوعات بھی شامل ہیں
خیر نا تو میں کوئی اول دنیا کا ڈونلڈ ٹرمپ ہوں اور نا ہی .........
میری مثال اس مینڈک جیسی ہے جس کی ساری دنیا اس کا کنواں ہے ،
تو چلیے اپنی اوقات پہ ہی آجاتا ہوں جو پانی کا نام سن کر منہ میں پانی تو نہیں آتا البتہ کسی عمر رسیدہ شخص کے چہرے کی مانند یا میری سرزمین کی خشک تالکاروں کی طرح حلق ضرور جلتا ہے
چونکہ میرا تعلق پانیوں کے بیچ اور پانی ہی سے محروم دھرتی سے ہے اگر یوں کہوں کہ میں پانی کا فرزند پانی سے یتیم شہر کا شہری ہوں پھر شاید آپ کو مجھ پر میری نسل در نسل پر افسوس کرنے میں زیادہ سوچھنا نہ پڑے
اقوام متحدہ تو ہرسال اپنے موضوعات پر یہ دن مناتی ہے مگر میرے شہر گوادر کے ایک سینئر صحافی نے اپنے سوشل میڈیا کے ایک پوسٹ پر اس دن کو روزہ رکھتے ہوئے گزارنے کا مشورہ دیا کیونکہ پانی کا دن تو ہم گوادر والے روز مناتے ہیں کبھی ہماری مائیں بہنیں برتنیں سروں پہ اٹھا کر گھر گھر یا عوام اپنے متعلقہ کونسلر صاحبان کے نمبرز یا ان کے گھروں کے چکر کاٹتے ہوئے یا کوئی چرواہا پانی کی تلاش میں گاؤں گاؤں یا ہمارے ٹینکر ڈرائور حضرات ڈپٹی کمشنر آفس و فلاں فلاں آفس یا ہفتہ دس دن ہر دو تین ماہ بعد احتجاج میں مناتے ہیں
اب جو منانا یا گزارنا باقی رہ گیا ہے وہ روزہ رکھنا ہے، کیونکہ یہ پانی کا مسئلہ ہمارے ہاں تو کوئی بھی اقوام متحدہ کے موضوعات "پانی اور روزگار" نہ "ماحولیاتی نظام کی تحفظ" اور نا ہی فطرت میں پانی جیسا بھاری موضوعات کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
ہم تو بس زندہ رہنے کیلیے دو بوند پانی کا سوال کرتے کرتے اپنی بے بسی کا ایک ناکام ثبوت ہی دے سکتے ہیں ،
قلت آب سے اگر کنواں کھودتے ایک ہی خاندان کے تین تین افراد لقمہ اجل بنتے ہیں تو کیا؟
سینہ پھر بھی تان کر اونچی آواز میں بولینگے کہ گہرے پانی تو ہمارے ہیں،
اگر سینیٹ کا ڈپٹی چیرمئین مولانا غفور حیدری صاحب انڈسٹریل سٹی حب میں گوادر میں پانی کی قلت پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں تو کیا؟ رہتے تو وہ پھر بھی ڈپٹی ہی ہیں ، کارواٹ پلانٹ کا افتتاع اور پھر افتتاع یوں مختلف اقساط میں گوادر میں پانی کی قلت، ایک نا ختم ہونے والی انڈین ڈرامہ کی شکل میں چلتی رہیگی،
مُلا موسی موڑ پہ دھرنے اور احتجاج میں گوادر کے آل پارٹیز کی آنکھوں میں بے بسی کی باوجود 2018 کی الیکشن میں دیکھنا جب یہی آل پارٹیز ووٹ مانگنے آئینگے تو اُن کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی نا ہوں تو کہنا،
جو بھی ہو ہم دنیا سے دوسرے میدانوں میں بھلے پیچھے ہوں مگر پانی کا دن، وہ سال میں ایک دن گزارتے ہیں اور ہم گوادر میں روز، ہمارے سیاسی لیڈر ہفتہ وار احتجاجوں میں حاضری کی صورت یا اخباری بیانات کی صورت اور وفاقی و صوبائی وزرا ماہانہ مختلف افتتاعوں کی صورت فائو اسٹار ہوٹلوں میں سال بھر مناتے رہتے اور خوب مناتے رہتے ہیں
کبھی کبھار تو ٹینکر مالکان کو معاوضوں کی عدم ادائیگی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جناب والیٰ نے پیسوں کو اپنے اکاؤنٹ میں سیونگ کیلیے رکھا ہے اور انتظار کررہا ہے کہ کب بارشیں ہوں اور کچھ لے دے کے اکاؤنٹ کو محفوظ ہی رہنے دیا جائے مگر چالاک بادل بھی شاید سیونگ کا ہنر سیکھ چکے ہیں
خیر پانی کا دن کیا اگر کوئی عشرہ بھی منائے تو ہم سے آگے نہیں جا سکے گا،
اب زرا پھر اوقات سے نکل کر ایک مفت کا مشورہ دیتا جاؤں مجھے پتہ ہے میڈیا کو اشتہارات اور سیاستدانوں کو جوتے کھانے سے فرست نہیں جو یہ دن یاد رکھیں مگر کچھ غیر ملکی فنڈڈ این جی اوز شاید یہ دن منائیں تو اگر کوئی پروگرام منارہے ہو تو فوٹوز کیلیے ہی سہی اسکول کے طلباء کو پڑھنے دو پلیز آگاہی پروگرامز کیلیے ضلعی پبلک ایلتھ کے آفیسروں کو بلاؤ شاید کچھ سیکھ جائیں آپ کا بھی بھلا ہوگا اور پانی کا نا سہی مگر پیاس کا دن تو منایا جائے گا وہ بھی احساس کے ساتھ.
Contact Form
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
New one
خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات
جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...
-
Javed Baloch روایات، احترام اور اخلاقیات کے اقتدار کی تشریح دنیا پتہ نہیں کیسے کرتی ہے مگر ہمارے ہاں سوال ایک بدتمیزی، بد اخلاقی اور...
-
جاوید بلوچ دسمبر 2019 ءِ روچ برکت بوھگءَ گوں نہ تہنا یک سالے ھلاس بوت بلکیں یک دہکے ھم آسر بوت ءُ ھمے روچ ءَ جہانی شنکاریءِ یک مزنی...
-
جاوید بلوچ اگر کوئی مریض ڈاکٹر کے پاس جائے اور واپسی پر ڈھیروں تعویز اور آیتیں یاد کرکے واپس لوٹے پھر بھی اتنی تعجب نہیں ہوگی جتنی کہ ...
No comments:
Post a Comment