Contact Form

Name

Email *

Message *

Monday 23 March 2020

کرونا! کچھ ایسا بھی کرونا


اس وقت دنیا سر جھوڑ کر بیٹھ چکی ہے، سڑکیں ویران ہیں لوگ گھروں میں محدود ہیں شاپنگ مال، دفاتر، پارک اور یہاں تک مذہبی مقامات تک بند پڑے ہیں کیونکہ عالمی وباء جس تیزی کے ساتھ آئی اور آکر تباہی پھلا رہی ہے یہ سب کچھ اس جدید دور میں عجیب بلکیں بہت الگ کفیت لگ رہا ہے مگر مندرجہ بالا تمام تر لاک ڈاؤن صرف باقی دنیا کے لیئے ہے ہمارے لیئے منظر نامہ کچھ مختلف ہے


جس طرح دنیا بھر میں تعلیم نظام بندش کا شکار ہے ویسے ہمارے ہاں بھی ادارے بند ہیں مگر یہاں وہ طالب علم گھروں یا ہاسٹلز میں نہیں بلکیں ساحل سمندر کی سیر، پکنک اور سیر و تفریح میں چھٹیاں گزار رہے ہیں  باز تو ان تعطیلات کو کرونا ویکیشن کا ایک نیا ٹرم اور نام دے رہے ہیں اور خدا نا خواستہ ایسا تاثر دے رہےہوتے ہیں کہ جیسے سمر اور وینٹر کی طرح ہر سال یہ ویکیشنز ہوں، نا بازار بند ہیں اور نا ہی عبادت گائیں بلکیں عبادت گاؤں کی بات تو اس قدر خطرناک ہے کہ حکومتی ادارے بھی احطیاطی تدابیر بتاتے وقت سوچ بچار میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور جان کی امان پانے کا سوچ رہے ہوتے ہیں۔

ہم اتنے مذہبی ہیں کہ اپنی مسلک کی بنیاد پر سعودی اور ایرانی عقیدت کا اظہار اگر نہ بھی کرتے ہوں تو ان کے معاملات پر آپس میں ضرور خون گرما دیتے ہیں لیکن اس صورت حال میں ہم ان سے بھی آگے نکل چکے ہیں، ایرانی اور سعودی احکام نے اس وباء سے بچاؤ کے لئے احطیاطً مذہبی مقامات اور اجتماعات پر پابندی لگائی ہے مگر ہمارے ہاں تو  پہلے اسے کافر وائرس قرار دے کر غیر مسلموں پر عذاب کہا گیا بعد میں اسے مسلکی بنیادوں پر ایک فرقہ کے ساتھ جوڑا گیا اور اب اسے مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے آزمایش ۔۔۔۔

اس سب کے بیچ احطیاطی تدابیر اور روک تھام نہ نونے کے برابر دکھائی دے رہے ہیں، اب ایسے میں مزید نصیتیں بے کار سی لگنے لگی ہیں کیونکہ جیسا عوام ویسا حکمران بھی تو ہیں۔ ہمارے زمہ دار وفاقی اور صوابائی وزراء اس صورت حال میں بھی  عامل اور پھونکوں والے بابوں کی طرح روز ایک نیا بیان جاری کرتے ہیں، کوئی پیناڈول کو علاج بتاتا ہے تو کوئی اموات کی شرح کو کم اور تسلی بخش اور بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں صوبائی حکومتیں اپنا سارا سیزن وفاق کا وفادار ہونے میں گزارتی ہیں اب انھیں شکوہ ہے ان کی خدمات کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ خیر ایسے صورت حال میں اب نہ تو حکومت کی طرف کسی قسم کی روک تھام پر آسرا لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی عوام پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے اب کرونا ہی سے کچھ مطالبات کرسکتے ہیں

کرونا! یہ تو پتہ نہیں تم کیسے آئے مگر پلیز اب جانے میں  جلدی کرونا۔

کرونا! صرف تباہی کیوں پھلا رہے ہو؟ کرنا ہے تو کچھ ایسا کرونا کہ اب ہر انسان کو یہ احساس ہوجائے کہ سائنس اور تعلیم کا شعبہ ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، صحت کو درپیش مسائل کو حل کرانے میں اور ماحولیاتی آلودگی کو کم کرانے میں دنیا بھر کے زمہ داروں کو ایک صفہ پر اکھٹا کرونا۔

کرونا! ہماری سرزمین پر پچھلے کئی سالوں سے تم جیسا ایک اور خطرناک وباء پھیلی ہوئی ہے جو زندہ انسانوں کو اٹھاکر غائب کردیتی ہے اور سالوں سال ان کا کوئی پتہ نہیں چلتا، ان لاپتہ افراد کو بازیاب کرونا۔

کرونا! ہماری تنگ اور ناکس مٹیریل سے بنائے ہوئے سنگل سڑکیں جنھیں قاتل شاہرائیں کہا جاتا ہے جہاں روزانہ کئی قیمتی جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں انھیں ڈبل کرونا۔

کرونا! اب اسلحہ کی دھوڑ میں بازی لے جانے والے ظالم اور جاہل انسانوں کو مجبور کرونا کہ وہ مزدور، کسان اور مائی گیروں کی معاشی بہتری کے لیے بھی سرمایہ لگائیں اور کرونا! ایک یہ چھوٹا سا کام بھی کرونا کہ زات پات اور جنسی برتری اور کم تریں میں پھنسے انسانوں کو انسان کرونا۔۔۔۔ 

کرونا! اگر تم بھی مجبور نہیں ہو تو پلیز آزادی اظہار رائے اور ہمارے ملک کے میڈیا پرسنوں کو صحافی بنا کر انھیں کچھ شعور اور علم بھی عطا کرونا۔

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...