Contact Form

Name

Email *

Message *

Monday 29 July 2019

جیوز، جہاں سوال کو عزت حاصل ہے

Javed Baloch


روایات، احترام اور اخلاقیات کے اقتدار کی تشریح دنیا پتہ نہیں کیسے کرتی ہے مگر ہمارے ہاں سوال ایک بدتمیزی، بد اخلاقی اور کفر کی علامت ہے
سوال پیدا ہونا یا سوچھنا اول تو ایک کٹھن اور انتہاٸی مشکل کام ہے اگر شازو ناظر سوال ذہن میں پیدا ہو بھی جاٸے تو وہ سوال زبان تک آتے آتے اس قدر بیماریوں میں مبتلا ہوکر ناتواں ہوجاتا ہے کہ اپنی اصل ساخت کھو دیتا ہے اور خود کو خود پہچانے سے بھی قاصر ہوجاتا ہے

سوال سوچھنے والے ذہن ہمیشہ سے ہر عہد اور زمانے میں ناقابل برداشت تھے، اور ہیں،
ایتھنز یونان کی قبل از تاریخ کی مجالس اور سرکلز سے لیکر شال(کوٸٹہ) کی مارشلاٸی فضاٶں میں لٹ خانے کی وجود تک کہیں ادارے بنتے گٸے، مجالس ہوتے گٸے اور یہ سلسلہ جاری ہے مگر تاریخ اپنا انصاف خود کرتی ہے اور اوراق کی پیشمانی پر  صرف وہی محفوظ رہتی ہیں جو سوال کو احترام دیتے ہیں

ہم جس دور میں آج رہ رہے ہیں یہاں ایک نوجوان اپنی شہرت معاشرے میں خوف کی علامت یا ناجاٸز دولت کے مالک کسی شخصیت کے ساتھ  کھڑے ہوکر سیلفی لینے کو سمجھتی ہے، جہاں ادیب خود کو باقی لوگوں سے الگ سمجھ کر ایک برینڈ بنا ہوا ہے اور فالورز بنانے اور بڑھانے پر خوش ہے
جہاں مذہب ایک مخصوص طبقے کی ذاتی جاگیر ہے جس پر بات کرنے کا اختیار کسی کو نہیں، اگر کرے تو قتل کی اجازت سب کو ہے،
جہاں ادارے شخصیات کے ذاتی ہیں اور شخصیات الہامی بن چکے ہیں جنھیں مرنا ہے پر ہٹنا نہیں
جہاں ایک لڑکی کی گھر سے باہر سڑکوں، گلیوں اور سوشل میڈیا پر لاتعداد خود ساختہ بھاٸی، باپ ہیں جن سے پوچھ کے بغیر ان کی تصاویر اور ویڈیوز ناقابل برداشت ہیں

ایسے میں سوال کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اگر گنجاٸش ہے تو ”جی سر“ کی، ایک عہدے کی (کہیں بھی ہو، کسی طرح کا بھی)، چند مشہور شخصیات کی تاکہ اگر کوٸی دوست فون کرے تو دھیمی آواز میں بولا جاسکے کہ اس وقت میں فلاں صاحب، میر، شیر یا فرزند کے ساتھ بیھٹا ہوں بعد میں کال کرنا،

یا ایک گاڑی کی جس کے سوٸچ بورڈ پر ایک عدد جھنڈا ہو تاکہ کسی بھی چوکی پر محب وطنی کی علامت بن کر لاٸن پر کھڑا ہونے کی بجاٸے ژپ،ژپ گزرا جاٸے

یا پھر سوشل میڈیا کے آٸی ڈیز پر چے گویرا کی تصویر، بس، اس سے زیادہ کیا ہو؟

این جی اوز کی نظام نے ہم جیسے بھوکے معاشرے میں جہاں فوٹو سیشن کو حاصل کل بنایا ہے، یہاں سوال ناجاٸز ہے کیونکہ سوال اپنے ساتھ کٸی اور سوالات جنم دیتا ہے، تصاویر میں قید شدہ وقت حالات اور واقعات کو دوسری رخ سے بھی دیکھنے کی گستاخی ہوسکتی ہے، کیونکہ سوال ایک سوال ہوتا ہے 

شہر خاموشاں جہاں غریب کم اور ٹرسٹ زیادہ ہیں جہاں طالبعلم کم اور انکی تنظیمیں زیادہ ہیں جہاں انسان کم اور ان کے پہرے دار زیادہ ہیں
جہاں سال کے بارہ مہینے روزگار کی آسراتی ایک نیلگوں سمندر ماتا کی صورت دستیاب ہو اور پھر بھی بھوک گلی کوچوں میں دن دھناتے رقص کرتی ہو
جہاں کی لوکل بنوانا اولین خواہش ہو مگر شناخت سُستی، بزدلی اور بدنامی کی سبب....

جیوز ماہانہ ادبی مجلس


اس شہر میں بھی لٹ خانہ زندہ ہے، سقراطی دور کے یونانی روایات زندہ ہیں، جہاں سوال سوچھنا اور پھر کرنے کا  ہنر سیکھایا جاتا ہے، جہاں سکھایا جاتا ہے کہ سوال کافر، گستاخ اور سوٸیٹ سیلفی زدہ نہیں ہوتے بلکیں سوال، سوال ہوتے ہیں

 بقول ڈاکٹر بیرم خان غوری صاحب کے کہ ”بیٹا سوال کو جواب چاہیے ہوتا ہے، درست یا غلط اضافی ڈیمانڈز ہیں“

اس چھوٹے سے شعوری اور سوالات کی صنعت کو ”جیوز“ کہتے ہیں جہاں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ادبی نشست کے علاوہ ہر شام کو انسانی لاٸبریری کی صورت میں مجلس لگتی ہے، کتب خانے کے اندر یا کبھی صحن میں کوٸی نا کوٸی موضوع زہر بحث ہوتی ہے، جہاں ”جی“ کے ساتھ ”نہیں“ کو بھی آزادی حاصل ہے

گوادر پورٹ سے چند قدم کے فاصلے پر اس انسانی ذہن ساز ادارے میں گفتگو انسانی زندگی کی علامت ہے خاموش اور الفاظ سے خالی انسانوں کے سیکھنے کیلیے علم کا خزانہ ہے،
جہاں کوہ باتیل پر کھڑا شاہی پی سی ہوٹل کے نظارے بھی نظر آتے ہیں اور  ماٸیگیروں کی کپڑوں سے  سمندر کے پانی اور پسینے کی بوہ بھی آتی ہے

جیوز لاٸبریری


اگر میں جیوز کے متعلق اپنے محدود مشاہدات بتاٶں تو جیوز صرف سوال سوچھنے کا ہنر ہی نہیں سکھاتا بلکیں اسے پوچھنے کیلیے ماحول اور ماہر بھی دستیاب کراتا ہے،
جہاں شاعر صرف شعر نہیں کہتا، جہاں نثر صرف پڑھا نہیں جاتا، جہاں صرف تالیاں نہیں بجھتیں بلکیں سب سے بڑھ کر سوال کو عزت دی جاتی ہے

بی بی سی کی ایک اسٹوری میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان میں انسانی لاٸبریری کی شہرت فروغ پارہا ہے، شاید یہ اسٹوری بی بی سی کیلیے نیوز ویلیوز پر پورا اتر رہی ہوگی جسے کور کرنا ضروری سمجھا گیا مگر اسی طرح کی ایک انسانی لاٸبریری اس عالمی شہرت یافتہ مگر بدقسمت انسانی وساٸل سے غریب شہر میں ایک دہاٸی سے جاری ہے، جہاں وقت گزرنے کا احساس اگر بجلی ناجاٸے تو شاید رات گٸے تک نہ ہو،

ہمارے ہاں روایت بن چکی ہے جب کسی مذہبی تہوار کا دن آتا ہے تو اپنے وفات شدگان کیلیے فاتحہ کی جاتی ہے اور مشہور ہے کہ اس دن انکی روحیں اپنے لوگوں کی دیدار کیلیے آ جاتی ہیں، تو اہل دانش، قلم کے سپاہی اور سوال سے بھرے ذہنیت کے مالک ہستیوں کو جیوز میں روز یاد کیا جاتا ہے اور اس میراث (سوال سوچھنے اور سوال کو اہمیت دینے کے عمل) کو نسل در نسل منتقل کرنے کا کام کیا جاتا ہے،

دنیا کے کسی بھی کونے میں کوٸی بھی ادارہ، گروہ یا شخص جو سوال اٹھاتا ہے، پوچھتا ہے اور اس عمل کو زندہ رکھتا ہے وہ یقینا تاریخ میں یاد رکھا جاٸے گا، کیونکہ سوال ایک ہمت، جدوجھد اور مہم کا نام ہے جس سے شعور کے دروازے کھلتے ہیں

No comments:

Post a Comment

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...