Contact Form

Name

Email *

Message *

Monday 25 January 2021

بی ایل کا کمانڈر ماردیا گیا ہے، اس لیئے حالات خراب ہیں

بی ایل کا کمانڈر لڑکی ماردیا گیا ہے، اس لیئے حالات خراب ہیں


ویران سڑکیں، سخت پہرے اور انتظار میں کھڑی آنکھیں اور ان سب سے زیادہ ایک نفرت، یہ نفرت عمومی نفرت سے جدا ہے کیونکہ عموما  نفرت جبر، ظلم و بربریت کے خلاف ہوتی ہے لیکن یہ نفرت اس خوف کے خلاف ہے جس کے سائے میں یہ نظام اپنے آخری سانسوں کو دن بہ دن بڑھاتا جارہا ہے۔ 


سوچھا کہ یہ تحریر ان سائیٹس کے لیئے لکھ کر بیھج دوں جہاں پہلے بھی میرے بلاگز اور تحریر کچھ نا کچھ پبلش ہوتے رہے ہیں لیکن بحیثیت ایک بلوچ صحافت کے طالب علم میں شروع دن سے یہ جانتا ہوں کہ اردو آن لائن میڈیا میں جتنے بھی صحافتی میدان کے نام ہوں انکی مثال اس نظام کے ان مُلاؤں، انسانی حقوق کے کارکن و فیمینسٹ اور جمہوریت کے دعویداروں کے جیسا ہے جو صرف ٹائم پاس کرتے ہیں اور بلوچستان سے متعلق کوئی بھی خبر، تحریر اور کچھ بھی ان کے اس نظام میں پروان چڑھے سوچ میں ان کے لیئے محظ چند الفاظ ہونگے۔ 


کاروان ءِ شہید کریمہ کی انتظار میں گوادر زیرو پوائنٹ سے لیکر کلاچ، دشت اور ڈی بلوچ تک کئی لوگ ڈر اور خوف سے نفرت کرتے ہوئے کھڑے تھے مگر اس سے کئی گنا زیادہ خوف  ریاستی مشینری میں دیکھا جارہا تھا جو آنکھیں پاڑ کر اپنے گزشتہ ستر سالوں سے کیئے گئے آقاؤں کے جبر و خوف کے نظام کو ہر طرف پھیلاتے گزر رہے تھے اور شاید ان آقاؤں کو دل ہی دل میں بدعائیں بھی دے رہے تھے جن کی منصوبہ بندیوں کی وجہ انھیں بھی آج ایک لاش کو اغواہ کرکے راستے میں چرواہوں، طالب علموں ، خواتین و بچوں سے چھپا چھپا کر لے جانا پڑ رہا تھا اور جہاں اپنی طاقت کے خوف کو شکست کردہ دیکھ کر بچوں اور نوجوانوں کی صورت جنھیں دور سے موقع ملتا اور وہ سلامی لیئے حاضر ہوتے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے لاہور کی میڈیا، پنڈی کی دیواریں اور اسلام آباد کی ایوانوں کو اس ایک لاش سے اس قدر خطرح ہے کہ اسے اپنے ایٹم بم سے زیادہ اہم سمجھ کر چھپا رہے ہیں۔


کاروان میں شامل چند گاڑیوں کو جب زبردستی روک کر واپس کیا گیا تو ایک بچارہ سپاہی کہتا ہے " تمھیں پتہ ہے بی ایل اے کا کمانڈر لڑکی مار دیا گیا ہے، حالات بہت خراب ہیں اس لیئے اس طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیں، آگے کرنل صاحب کھڑے ہیں"


پتہ نہیں اس کرنل صاحب نے کیا سوچھ کر یہ حکم دیا تھا مگر اس سے پہلے والے کئی اسی عہدے پر رہنے والوں کی وجہ سے اس کی بلیڈ پریشر اور نفسیات پر بہت برے اثرات پڑے تھے جس نے سخت ترین کرفیو، کمیونکیشن کے تمام طریقے مکمل بند کردیئے تھے۔ کیونکہ اس سے پہلے کریمہ بلوچ ایک عام بلوچ طالب علم کے لیئے صرف ایک طالب علم رہنماہ تھی جو پدر شاہی قدامت پسند کہلانے والی بلوچ سماج، پیداگیر اور موقع پرست سرداروں اور چند دیگر پارلیمانی سوداگروں کے لیئے ایک مزاحمت کی علامت تھی مگر ریاست اور ان کے منصوبہ سازوں کے لیئے ان کی لاش اس قدر خوف کی علامت ہے یہ ان کی موت نے عیاں کردیا۔


رات گئے تک سخت سردی میں کھلے آسمان تلے بیھٹے بچے و خواتین اور راہ گیر جو اپنے اپنے گھروں تک جانے کے لیئے ڈی بلوچ چوک تربت میں راستے کھلنے کا انتظار کررہے ہیں۔ ان کی نسلوں میں سے چند ایک کل کو شاید ہی کسی کالے شیشوں والے گاڑی میں بیٹھ کر چند پیسوں اور پروٹوکول کے لیئے ناجائز طریقے سے محب وطن کہلائیں مگر یہ ان پڑھ مائیں، بچے و بوڑھے بھی جب کرفیو کھلنے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹینگی تو کریمہ کی موت اور نظام کی جبر کو نہیں بھولینگی۔ اب اس نظام سے زیادہ یہ لوگ اپنے اندر کے خوف سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ جسے چند پیسوں کا تنخواہ دار اپنے ملازمت تک تو شاید کیسے بھی برقرار رکھ سکے مگر اپنی نسلوں کو اس عارضی منصوبہ بندی سے تباہ کردے گا۔۔۔۔ کیونکہ جب وہ عام سپاہی کل کو گھر لوٹے گا یا انکے بچے انھیں بتائینگے کہ ایک لڑکی کی میت کے وقت    ایسا کیا گیا تھا تو ۔۔۔۔۔۔

@JavedGwadari

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...