Contact Form

Name

Email *

Message *

Friday 31 May 2019

چھوتا کلمہ امنتُ با للہ

جاوید بلوچ
اگر کوئی مریض ڈاکٹر کے پاس جائے اور واپسی پر ڈھیروں تعویز اور آیتیں یاد کرکے واپس لوٹے پھر بھی اتنی تعجب نہیں ہوگی جتنی کہ ایک چیک پوسٹ پر آپ کو روک کر آپ سے پوچھا جائے کہ چھوتا کلمہ پڑھ کر سناؤ....
کچھ مہینے پہلے ایک دوست نے کمیشن کے کسی پوسٹ کیلیے ٹیسٹ دیا تھا اور خوش قسمتی پاس بھی کر لیا، وہ انٹریو کی تیاری کیلیے روز صبح وقتی لائبریری کا رخ کرتا اور شام کو آخری طالبعلم وہی ہوتا جسے لائبریرن روز یہ یاد دلاتا تھا کہ بھائی لائبریری کے بند کرنے کا وقت ہوگیا ہے اگر آپ اٹھنے کی زحمت کرینگے تو میں اسے بند کرکے چھٹی کروں، یہ امیدوار کیمسٹری کا اپنے کلاس میں سب سے ہونہار طالبعلم ہے اور جس پوسٹ کیلیے تحریری امتحان اعلی نمبروں سے پاس کرچکا ہے وہ بھی کیمسٹری سے متعلقہ ہے مگر انٹریو کیلیے وہ جہاد اور غزوات کی تواریخ، ان میں شامل لوگوں کی تعداد، مقام، دونوں اطراف زندہ بچ جانے والے اور مارے جانے والوں کی تعداد رٹ رہا ہے کیونکہ کیمسٹری کی اس پوسٹ کیلیے یہ سب پوچھا جائےگا اور سولہ سالا تعلیمی میدان میں جو پڑھا سو پڑھا مگر یہ نہیں آتا تو فیل.
خیر ہمارے معاشرے میں ہر جگہ ہر طریقے سے جائز ہے مگر اس حد تک بھی؟ واقعی قابل حیرت ہے کہ ایک چیک پوسٹ پر کھڑا ایک محافظ سے کہا جائے کہ آنے جانے والوں کی چیکنگ کے ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھنا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ کہاں جارہے ہو؟ اور یہ بھی  کہ چھوتا کلمہ سناؤ....
بلوچستان بھر اور خصوصا گوادر کا ہر چیک پوسٹ اہمیت کا عامل ہے جہاں کھڑی اور شدید چیکنگ ہر وقت جاری ہے مگر اس چیکنگ میں ایک استاد سے جو روزانہ شہر سے تیس پینتیس کلومیٹر دور ڈیوٹی کیلیے جاتا ہو اسے یہ پوچھا جائے کہ قائد اعظم کی تاریخ پیدائش کیا ہے.... اگر اس کا نام بالاچ، بشام اور کچھ ہو تو یہ نام کیوں رکھا ہے جیسے سوالات اگر تنگ نہیں کرتے تو حیران ضرور کرتے ہیں
بالکل اسی حیرانگی کا سامنا کرنا پڑا مجھے جب میرے محافظ نے میرے ایمان سے متعلق سوال کیا کہ چھوتا کلمہ سناؤ جوکہ بدقسمتی سے مجھے نہیں آتاتھا اور میں نے یہ کہہ دیاکہ میں صرف پہلے کلمے پر گزارا کرتا ہوں، اس بیچ اس محافظ سے کافی دیر تک خوبصورت گفتگو چلتی رہی اور آخر کار ہنسی مزاک میں یہ طے پایا کہ واپسی پر جب لوٹونگا تو چھوتا کلمہ مجھے یاد ہوگا...
واپسی تقریبا کوئی دو گھنٹے بعد ہوئی مگر ان دو گھنٹوں ہم یہی سوچھتے رہے کہ محافظ نے ہمیں ایلمنٹ کا پوچھا  ہمیں سن کر حیرانگی ہوئی نا اس پر بات آگے بڑھی، اس نے یہ بھی پوچھا کہاں سے آرہے ہو، نام کیا ہیں، کہاں جارہے ہو وغیرہ وغیرہ مگر جیسے کلمہ سناؤ والا مطالبہ چیک پوسٹ پر عجیب سا لگا اور بہت ہی پریشان کرنے والا عمل محسوس ہوا، کیا میں اگلی دفعہ کہیں سے بھی گزروں تو کوئی پبلک سروس کمیشن کی انٹریو کی طرح کئی کئی دن لائبریری میں رٹا لگانے کے بعد گزروں؟ اور جب تک تیاری مکمل نہیں ہوتی گھر سے نکلوں ہی نہیں....
لگتا ہے کچھ بلکیں بہت کچھ الگ ہورہا ہے جو کام کہیں اور کرنے کا ہے وہ کہیں اور سے کرایا جارہا ہے،
خیر ایک دفعہ میں اپنے ایک سینئر دوست کے ساتھ پنجاب کے ایک شہر بوریوالا سے ٹکٹ کرکے بذریعہ بس کراچی آرہے  تھے ہم نے ٹکٹ کرلیا اور بس کے انتظار میں تھے جو تقریبا لاہور سے آرہا تھا جن کا اپنا کوئی کوٹہ سسٹم تھا کہ کچھ سواریاں بورےوالا اترینگی اور ہم یہاں سے چڑھینگے،
 بس آن پہنچا ہم اپنی سیٹوں کی طرف گئے تو ایک نوجوان اپنی بوڑھی ماں یا گھر کے کسی بوڑھی عورت کے ساتھ پہلے سے بیٹھے ہوئے ہیں ہم نے ٹکٹ دکھائے کہ یہ سیٹیں ہماری ہیں تو بوڑھی نے ریکوسٹ کی کہ وہ تھوڑا سا آگے اترینگیں بیمار ہیں پیچھے بیٹھ نہیں سکتے ہم دل میں فرشتہ بن گئے اور پیچھے بقول دوستوں کہ سول ہسپتال کے بیڈ پر بیٹھ گئے اور اپنے سیٹوں کے خالی ہونے کا انتظار کرنے لگے مگر وہ تھوڑا آگے تین گھنٹے بعد بہاولپور میں آگیا جہاں بس نے تقریبا پندرہ منٹ- کیلیے رکنا تھا ہم نیچھے گئے کچھ دوستوں سے بھی ملے اور کھانا کھایا جب دوبارہ اپنے سیٹوں کی طرف آئے تو اس دفعہ دو آدمی وہ بھی دبنگ اسٹائل جو بات کرنے اور سنے کیلیے تیار نہیں ، ہم نے ٹکٹ دکھائے بابا یہ ہماری سیٹس ہیں ان کے پاس بھی بہالپور ٹو کراچی ٹکٹ تھے، اب ڈرائیور کے پاس گئے کہ ہماری سیٹیں؟ ڈرائیور بات سنے کیلیے تیار نہیں ٹکٹ پر درج نمبر پر کال کی ادھر سے جواب آیا کہ اپنا معاملہ خود سلجھائیں، اب دوبارہ وہی سول ہسپتال کا بیڈ جو پسلیوں کو دوسرے پسلیوں سے ملانے کے برابر....
اچانک سامنے موٹر وے پولیس کی گاڑیوں کو گزرتے دیکھ کر میرے ذہن میں خیال آیا کیوں نا شکایت کرکے دیکھیں کیا ہوتا ہے، ہیلپ لائن ڈائل کیا اچھا ریسپونس ملا اور جواب ملا کہ کہ آگے بس جس بھی مووی پوائنٹ پر رکے وہاں بتادینا شکایت نوٹ کرلی گئی ہے، تقریباً آدھے گھنٹے بعد موٹروے پولیس چیک پوائنٹ آگیا ہم اترے اور اپنا شکایت دہرایا تو جوان نے فورا جواب دیا کہ آپکی شکایت ہمیں مل چکا ہے
پھر ڈرائیور بلایا گیا اور ایسی کلاس ہوئی ڈرائیور کی چالان کی رقم کم اور بے عزتی کا پیکج زیادہ لگنے لگا، ہمیں ہماری سیٹیں ملییں اور کوئی رات کے ساڑھے تین بجے پھر اچانک بس کو رکھوایا گیا تو دو اشخاص اندر آگئے ہم دونوں کا نام لے کر پکارا گیا کہ نیچھے اتریں..... اب شاید مچھلی کو پانی سے نکال لیا جائے وہ ایسے نہیں لرزتا جتنا کہ ہم دو طالبعلم ،
نیچھے آئے تو دیکھا موٹر وے پولیس کے افسر جوانوں کے ساتھ کھڑے ہیں ڈرائیور کے سامنے پھر ہم سے پوچھا گیا کہ دوبارہ تم سے ڈرائیور یا بس عملے نے بدتمیزی تو نہیں کی ہے؟ اگر کریں تو کراچی تک کہیں بھی دوبارہ اسی نمبر سے  ہیلپ لائن کو کال لگائیں....

یہ مناظر دیکھ کر یقین مانئیے بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ میں اس ملک میں سفر کررہا ہوں کیونکہ فرض کریں اگر میرے ذہن میں ہوتا کہ اگر میں کال کرونگا تو مجھ سے چھوتا کلمہ پوچھا جائے گا تو میں کال کرتا؟ ہرگز نہیں، خیر اصل واقعہ کہ ہم پھر جب دوگھنٹے بعد  دوبارہ اپنے چیک پوسٹ پہنچے تو مجھے پھر بدقسمتی سے چھوتا کلمہ یاد تو نہیں تھا مگر میں نے محافظ سے ریکوسٹ کی اگر چھوتے کلمے کی جگہ امنت باللہ چلےگا تو سناؤں، بس وہ سنا کر آگیا .
@JavedGwadari

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...