Contact Form

Name

Email *

Message *

Saturday 19 October 2019

مزاحمت کار، طالب علم لڑکیاں

جاوید بلوچ


سوچھا کہ عنوان کو "طلباء یونین وقت کی ضرورت" یا "جامعہ بلوچستان میں ہراسمنٹ کی بریکنگ نیوز اور بلوچ طلبہ" یا اسی طرح کا کچھ اور لکھ دوں مگر ایک لامحدود اور کئی حوالوں سے ایک جامع عنوان کے ساتھ شاید نا انصافی ہوتی، اسی لیے یہ عنوان دیا گیا ہے جسے پڑھنے والے تبدیل بھی کرسکتے ہیں،

خیر! خبر کچھ یہ ہے کہ فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی کو کچھ طلباء کی طرف سے شکایات موصول ہوئیں بہ حکم بلوچستان ہائی کورٹ کہ جامعہ بلوچستان کی انتظامیہ اور سیکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے   طلباء کو خفیہ کیمروں کی مدد سے ان کی ویڈیوز بناکر انھیں بلیک میل کیا جارہا ہے، ان شکایات کا موصول ہوتے ہی ایف آئی اے نے ایکشن لیا اور کوئی باراں ایسے ویڈیوز حاصل کرلیے  جس میں جامعہ انتظامیہ اور سیکیوریٹی اہلکار ملوث پائے گئے ہیں، اب انتظار ہے کہ تفتیش ہوگی اور  نتیجہ نکلےگا کہ اصل مجرم کون ہیں،

چونکہ اس معاملے کا تعلق بلوچستان سے ہے اس لیے اس کی حساسیت اور تحقیق، غیر جانبدارانہ انوسٹیگشن اور اصل حقائق سب پر بہت سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اور شاید نتیجہ بھی کچھ مختلف آئے، یا کچھ بھی نہ آئے، کیونکہ یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے بلکیں جو کچھ جس طرح ہے، وہ بھی اس طرح شاید نہ ہو،

یہاں سب سے پہلی بات اس جزباتی بریکنگ نیوز کی ہے جو اس گرم خبر کے منظرعام پر آتے ہی گرم جوشی اور بھرپور جزبات کے ساتھ سوشل میڈیا پر زیربحث اور سراپائے احتجاج گروپس، تنظیم اور طالبعلموں کی ہے جو بلوچ ملی نغمے کے ایک جملہ "ما لجیں گوہارانی" کا ثبوت دے رہے ہیں، اب یہ بہنیں اور ان کی عزتیں اس ایک اسکینڈل یا واقعہ سے کس قدر متاثر ہوئی ہیں، مجھے بالکل بھی اس کا اندازہ نہیں، البتہ ایک چیز پر مجھے حیرانگی اور شدید قسم کی پریشانی بھی ہے کہ جنسی ہراسمنٹ اور جامعہ بلوچستان کی بچیوں، لڑکیوں یا عام الفاظ میں خواتین کا لفظ زیادہ استعمال کرکے شاید اس عمل کو لڑکوں، بچوں کے ساتھ جائز یا تھوڑا کم مسئلہ سمجھا جارہا ہے، یا ہوسکتا ہے مجھے ہی یک طرفہ اس معاملے کو لڑکیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہونے کی تنگ نظری کی بیماری ہوگئی ہو.....

کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں کیا یہاں امام مسجد جیسے محترم عہدے پر فائز درندے ، مدارس میں دینی تعلیم دینے والے استاد، راہ چلتے مسافر اور اپنے سگے رشتہ داروں سے لیکر دفاتر کے باس وغیرہ تک کئی لوگ اس جرم میں ملوث نہیں پائے گئے ہیں؟

اگر قصور کے کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے درندوں کے عمل سے تمام بچے بے عزت نہیں ہوتے تو جامعہ بلوچستان کی لڑکیاں کیوں ہوں؟ یہ تو ایک جرم ہے جس کے بھی ساتھ ہو خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی، بے عزت اور شرمسار تو اس مجرم کو ہونا چاہیے جو جرم کرتا ہے، جو گروپس ننگ و ناموس کے جزباتی کردار بنے ہوئے ہیں، ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسی جامعہ بلوچستان میں ادارے کی زیردست ایک طلبہ تنظیم کام کر رہا ہے جو ادارے کی طرف سے طالب علموں کو تفریحی سیر، پروگرامز اور ٹیلنٹ شوز منعقد کراتی ہے جس کے ہر سال شمولیتی فارمز بھی بروائے جاتے ہیں، کیا کوتاہی تم سے سرزد ہورہی ہے جو بڑے لیڈروں، سیاستدانوں اور اعوانوں میں بیٹھنے والے لوگوں کے ساتھ، حمایت اور سرپرستی ہونے کے باوجود بھی تم اور تمھارے تنظیم عام طالبعلم کو ادارے والی تنظیم سے بچا نا سکے؟

جن جن طلباء تنظیموں کی احتجاجی ریلوں میں سب سے بڑا نعرہ "زندہ ہیں طلباء زندہ ہیں" ہوتا ہے، کیا وجہ ہے کہ وہ جن سیاسی پارٹیوں کے لیے الیکشن کے دنوں ورک کرتے ہیں، جھنڈے لگواتے ہیں، انھیں اعوانوں اور اقتدار کی کرسی تک پہنچاتے ہیں، وہ طلباء یونین کی بحالی کے لیے آئینی کام اور اقدامات نہیں اٹھا سکتے؟ یہی وجہ ہے کہ آج کے ڈمی تنظیموں سے سیلفی زدہ نوجوان اور مستقبل کے ٹیکہ دار تو نکل رہے ہیں مگر نظریاتی اور فکری لوگ نہیں، یہ لوگ جہاں مجمع دیکھتے ہیں شامل ہوجاتے ہیں، جہاں عہدہ ملتا ہے ایک گروپ سے مستفی تو دوسرے کا بنیاد رکھتے ہیں، جہاں کوئی نرم  بالشت اور نام کا نام نہاد کچھ بھی ملے جھٹ سے تعلقات جوڑتے ہیں اور اس قدر کنفیوز ہوتے ہیں کہ باز اقات جس مجمع میں شریک ہوکر احتجاج کررہے ہوتے ہیں، مطالبات اسی شخص سے کررہے ہوتے ہیں جسے چند دن پہلے سوشل میڈیا پر گریٹ پدسنیلیٹی کہہ کر پوسٹ کرچکے ہوتے ہیں، 

جامعہ بلوچستان کی اس ہراسمنٹ کی واقعہ کو چلیے چھوڑتے ہیں، کیا بلوچستان سمیت ملک بھر کی جامعات کے طالبعلموں کو یہ پتہ ہے کہ ملک بھر یا شاید اس خطے میں سب سے زیادہ لاپتہ طالب علموں کا تعلق اسی جامعہ بلوچستان سے ہے؟ بہت ساروں کی تو مسخ شدہ لاشیں بھی ملی ہیں، کیا یہ طالب علموں کا مشترکہ مسئلہ نہیں؟ اس پر کب ملک گیر احتجاج ہوگا؟ ہوگا بھی یا سرپرست سیاسی جماعت اجازت نہیں دےگی؟

مشال خان بھی ایک طالب علم تھا جسے جامعہ کے اندر ایک مخصوص انتہا پسندانہ سوچ کے ٹولے نے گھسیٹ گسھیٹ کر قتل کردیا، روشن خیال طلبہ تنظیوں نے کیا کیا؟

حانی گل بھی ایک طالب علم ہے، ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی مگر انھیں دن دھاڑے کئی دنوں تک غائب رکھا گیا، ان کی تعلیم، ان کی کیرئیر سب کچھ اُن سے چین لیا گیا، کیا ہوا کتنے احتجاج ہوئے؟ کیا وہ بھی طلباء کا مسئلہ نہیں تھا؟

میڈیکل کالج میں نمرہ کی موت سے لیکر بحریہ کالج اسلام آباد تک کا سانحہ، کتنا اتحاد دکھایا گیا؟ کس طلباء تنظیم نے کس واقعہ کو ایک جگہ، ادارہ اور جنس سے نکل کر واقعی میں طلباء کا مسئلہ سمجھ کر اتحاد کے ساتھ آواز بلند کیا؟


چونکہ ہم جزباتی قوم ہیں اس لیے کسی بھی بٹن کے دبنے سے فوراً ایکٹیو ہوجاتے ہیں اور ڈمی عناصر کے ہتھ چڑھ جاتے ہیں مگر تحریک اور حقائق روشن باب کی طرح واضح ہیں کہ بلوچستان کے خوف زدہ، گھٹن زدہ ماحول میں جب لڑکے صرف الیکشنز کیلیے بینرز اور جھنڈے لگانے اور سوشل میڈیائی تصاویر کے لیے بنائے گئے کردار بنے تھے تب یہاں پچھلے کئی عرصوں سے تحریک، احتجاج اور مزاحمت کی مثال لڑکیاں ہیں،
جب پریس کلب تک لڑکوں کا بغیر کسی اشرفیا کی سرپرستی اور حمایت کے  جانا ناممکن تھا تب
بلوچ لڑکیاں ہزاروں کلومیٹر پیدل چل کر "لجیں گھارانی" سے زیادہ "کوپگیں براتانی" کا عملی ثبوت دے رہے تھے، 



کوئٹہ کی سڑکوں کیلے احتجاج کی زرہ سی آہٹ جب خواب بن چکا تھا تب سیما بلوچ نے جناح روڈ پر انسانوں کا سمندر نکالا تھا،

سریاب کی شاہ دگ نے جب حق کی آواز کو اپنا قصور مان کر خاموشی کے ساتھ جینا سیکھ لیا تھا،جب کوئٹہ دھماکوں کا شہر، عقوبت خانہ اور موت کا میدان رہا،
تب آواران سے مستونگ اور جعفر آباد سے خاران کے مسافر بلوچ طالب علم لڑکیوں نے اس شہر کو طلباء دے کر  زندہ رکھا،
انہی دور دراز علاقوں کے لڑکیوں نے  ہزاروں کلومیٹر دور کوئٹہ آکر اپنا تعلیم جاری رکھا،  تب بھی اور اب بھی وہ بہادر مسافر لڑکیاں یہاں آکر تعلیم حاصل کررہی تھیں اور کررہے ہیں، کیونکہ یہ مسافر طالب علم لڑکیاں بزدل، کمزور اور کسی قبائلی سماج کے پاؤں کی جوتیاں نہیں بلکیں ایک تعلیم یافتہ طاقت ہیں،

تو برائے کرم اُنھیں ایسے غلیظ اور کمزور حرکات سے ڈرانے، استعمال کرنے یا کمزور ہونے کی احساس مت دلائیں یہ تو مزاحمت کی جیتی جاگتی مثال ہیں، کیونکہ ان کا تعلق بلوچستان سے ہے.

No comments:

Post a Comment

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...