Contact Form

Name

Email *

Message *

Monday 23 July 2018

آدم خور معاشرہ

ہمارا آدم خور معاشرہ پنجھے پال رہا ہے
جاویدبلوچ
Me student of journalism

@JavedGwadari

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں دن بدن تفرقہ بڑھتی جارہی ہے، لوگ اپنے جیسے لوگوں سے الگ رہنا چاہتے ہیں ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے جہاں ہر شخص آگے نکلنا چاہتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جو پیچھے رہ گیا وہ کم تر، کم درجہ اور تمام تر وقار و عزت سے گرا ہوا ہوتا ہے، اگر کچھ لمحوں کیلیے سوچھو بھی تو عجیب و غریب سا لگنے لگتا ہے
کچھ دن پہلے کچھ دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو ہورہی تھی تو بات نکلی انتخابات کہ پہلے یوں ہوتا تھا کہ اشرفیہ طبقہ ووٹ کیلیے صرف خاندان کے کسی ایک بڑے یا چالاک شخص سے ملتے تھے اور تمام ووٹ لے کر سالوں غائب ہوتے تھے اگر ملتے بھی تو صرف اسی سرکردہ سے جو ووٹ لے کر اسے جتواتا تھا

مگر اب ایسا نہیں رہا اس خاندانی سرکردہ کو باقی خاندان کے لوگ نہیں مانتے کیونکہ وہ اگر اس وزیر یا نمائندے سے ملتا تو صرف اپنے ذاتی یا اپنے بچوں کے کام نکلواتا، خاندان صرف یرغمال ہوتا تھا، اب ہر شخص دوسرے سے نفرت کرنے لگا ہے اپنا کام خود کرنا چاہتا ہے دھوکے میں نہیں رہنا چاہتا، اس کے لیے چالاک طبقوں نے اب ووٹ کیلیے پیسے چلانے کا رواج عام کیا ہے جہاں چند پیسوں سے ووٹ حاصل کیے جاتے وہاں کے اسکول، ہسپتال ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہیں اور ان اسکولوں اور ہسپتالوں کے پیسوں صرف خود پر خرچ کیے جاتے ہیں
اس سرکردہ اور فردی مفاد کا انجام یہ ہوا کہ معاشرے میں ہر شخص سرکردہ بننا چاہتا ہے ہر کوئی دوسرے سے صرف مفاد نکالنا چاہتا ہے، جتنا ہوسکے دوسرے کو لوٹنا چاہتا ہے ایک بھوک نے ہر شخص کے اندر جنم لیا ہے جو روز بروز بڑھتی جارہی ہے
ایسی بھوک جو انقلاب فرانس اور روس کے وقت عوام میں تھی جس میں بادشاہت سے ایسی نفرت ہوئی کہ ان کو اہل و عیال سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا، انکے جسموں کو نوچ ڈالا بلکیں کھایا بھی
ایسی نفرت جس سے لیبیا کے لوگوں نے اپنے بادشاہ کزاففی کی لاش کو چوراہوں پہ گھسیٹا
آج ہمارے معاشرے کا بھی غریب اکثریتی طبقہ ایک ایسی بھوک کی طرف مائل ہورہی ہے انکے دلوں میں انکے کونسلر سے لیکر ہر نمائندہ، کسی بڑے پوسٹ پر فائز سرکاری افیسر وغیرہ سب کیلیے نفرت کے سوا کچھ نہیں اگر سامنے جھک کر سلام کرے تو دل میں ہزار گالیاں دے گا
یہی وجہ ہے جہاں جسے جو بھی موقع ملے وہ دوسرے کو ستائے گا بلکیں تڑپائے گا اور اپنا کوئی نا کوئی بدلہ اس سے ضرور لے گا

اگر وہ ٹریکٹر، ٹرک یا رکشاہ چلا رہا ہے تو بھرپور کوشش کریگا کہ اس ائیرکنڈیشن کار والے کو راستہ نہ دے
اگر ڈاکٹر ہے تو اپنی اسٹیٹس کو ہائی لیول طبقے تک ملانے کیلیے ہر دوائی کمپنی سے ملکر عام زندگیوں سے کھیل کر اپنی زندگی بنانے کی کوشش کریگی
اگر وہ کسی دفتر کا کلرک ہے تو اپنے افسرز کی کرپشن کو دیکھ کر اپنے حالت کو برا سمجھ کر اسے تبدیل کرنے کی ہر ناجائز کوشش کریگی اور اپنے سے نیچھے لوگوں پہ جتنا کرسکے زیادتی و بے رحمی کریگی
ایک عام آدمی آج عام نہیں بلکیں حساس ہوتا جارہا ہے
ٹریفک پولیس اپنے صاحبوں کی ڈیوٹی نہ دینے کا بدلہ سڑک کنارے کھڑے ریڑی والے سے لیتا ہے جتنی گالیاں دے سکتا ہے اسے دیگا بلکیں کھلے عام پیٹھگا بھی

ایک مسجد کا مولوی محض چند روپوں کی خاطر زندگی بھر امامت کرانے کیلیے کیسے رازی ہو؟ وہ ہر طرح ہوسکے بیان میں ردوبدل کرکے اور جس نمازی کے جیسے بھی کمائے ہوئے مال و زر ہوں انھیں حاصل کرنے کی خاطر جمعہ کا خطبہ اسی طریقے کا ہی دے گا
غرض کہ ہر طریقے سے معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے  کپڑوں سے لیکر، چھت، خوراک، رنگھت ، ڈیل ڈال ہر چیز چینا چاہتے ہیں
لگتا کہ ہر شخص اندر ہی اندر بڑے پنجھے پال رہا ہے اور دوسرے پر حملہ کرکے اسے کھانا چاہتا ہے
ہم اور ہمارہ معاشرہ آدم خور بنتے جارہے ہیں بھلے ہر پارٹی کے جلسے میں جاکر یہ محسوس کراتے ہیں کہ لوگ سمجھیں کہ فلاں شخص فلاں پارٹی کا مگر حقیقت میں صرف نفرتیں جنم لے رہی ہیں اور نوچ کر کھانے والی قربتیں بڑھ رہی ہیں

سیاستدان جتنا ڈھنک رچا سکے رچائے گا جتنی ھمدردی حاصل کرسکتا ہے جس بھی طریقے سے وہ کریگا مگر اپنی کرسی کو جانے نہیں دےگا گو کہ بعد میں ناں منشور بچےگا ناں وعدے

وہ ایک پرائیوٹ اسکول کے فیسوں کی صورت ہو یا دودھ میں ملایا ہوا پانی کی صورت میں ہر شخص اس کا شکار بھی ہے اور شریک بھی
اب کب یہ بھوک، یہ گٹھن باہر نکلیگی پتہ نہیں مگر اسکے آثار واضح اور شدید تر ہوتے جارہے ہیں یہ مذہبی جنونیت کی صورت یا ذاتی برتری کی صورت ہر طرح سے نمایا ہے
دوسروں کو نقصان پہنچانا بھلے خود کو پہنچے، دوسروں کو ذلیل کرنا خود چاہے کتنا بھی ہوں، یہ ایک اشتعال انگیز اور خطرناک چہرہ ہمارے معاشرے کا.....
ایک آدم خور چہرہ....
bjaved739@gmail.com

No comments:

Post a Comment

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...