Contact Form

Name

Email *

Message *

Monday 16 July 2018

الیکشن! ایک نفسیاتی بیماری؟

جاویدبلوچ
@JavedGwadari

"یار اکیس سے چُٹھیاں شروع ہورہی ہیں اب بندہ پریشان ہے کہ جائے یا نہ جائے اِدھر تو ہاسٹل سے ہمیں گسھیٹ کر نکالا جائے گا اور اُدھر تو جنگِ عظیم چڑھی ہوگی"
پیشانی پر بل بناتے ایک بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ
"ہاں یار بندہ پریشان ہے، کل گھر بات ہوئی بتا رہے تھے کہ ہیرونک میں ایک اسکول جلایا گیا ہے، ادھر مستونگ سانحہ میں شہادتیں اب تک بڑھ رہی ہیں"
یہ دو طالبعلم الیکشن کے حوالے سے کینٹین میں بیٹھے عام سی گفتگو کررہے تھے،
الیکشن کسی بھی ملک کیلیے انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں، انہی کی وجہ سے جمہوریت کا نظام تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور ہر بالغ شہری اپنے حق رائے دہی کی استعمال کیلیے بے چین ہوتا ہے
پچھلے پانچ سالا کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے سامنے کئی سیاسی جماعتوں کی صورت میں مختلف امیدوار، مختلف نظریات اور منشوروں کے ساتھ عوام کے روبرو کھڑے ہوجاتے ہیں اُن کی ووٹ لیکر اُنھیں طاقت کا سرچشمہ سمجھ کر اُن کی جان، مال، رہائش و روزگار اور تمام ضروریات کو پورا کرنے کا وعدہ کرکے قانون ساز اسمبلی تک پہنچتے ہیں...
کتابوں میں ایسا ہی لکھا ہے مگر ہم جس خطے میں رہتے ہیں یہاں الیکشن ایک ذہنی دباؤ، ایک بےچینی اور اذیت ناک مرحلہ ہے
خصوصاً نوجوانوں کیلیے یہ کرب زدہ مدت کھٹنے کو نہیں کٹھتی اور نہ وہ کھل کر اس کے متعلق کچھ بول سکتے ہیں اور نہ ہی اندر ہی اندر نفسیاتی طورپر خود کو پریشانی کی سمندر میں ڈبونا چاہتے ہیں، زرا آس پاس دیکھ کر صرف اپنی اس (الیکشن) سے پیدا ہونے والی نفسیاتی مرض کا احتراف کرتے ہیں بس...
یہ مسئلے گزشتہ بے روزگاری، قلت آب، بجلی کی بندش، وی آئی پی پروٹوکول، ناکس معیار تعلیم، مذہبی جنونیت اور اظہار رائے کی گٹھن کے ساتھ ایک اور پیکج کی طرح مل جاتا ہے
وہی چہرے جو کرپشن کی داغ سے سیاہ ہیں، وہی وعدے جو قوم پرستی اور مذہبی ڈرامے کے ساتھ بے انجام پورا نہ ہوسکے اور ان کے وہی آقاء جو انھیں لاتے، ملاتے، لڑاتے اور پھر چُڑاتے......
وہ نوجوان جو گھر سے باہر اپنے علاقے میں یا تو خود پریشانی کی عالم میں "مالِ آسان دستیاب" لگا دم مٹا غم میں گرفتار ہوکر بوڑھے ماں باپ کیلیے غم کا ایک مزید بوجھ بن جاتا ہے یا محض ایک تصویر بن کر کسی پریس کلب کے سامنے پڑا رہتا ہے
وگر نہ کسی دوسرے شہر میں حصول علم کیلیے نکل کر الیکشن کی چھٹیوں میں اپنے گھر جانے پریشان رہتا ہے

اگر ایک نوجوان گھر جائے اور ووٹ نہ دے تو مکار کاروباری ٹولوں سے کیسے دور رہ سکتا ہے جو خود اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کیلیے قبائلی فرسودہ رواجات کو سامنے رکھ کر کسی ایک خاندان کے سربراہ کو محض چند لمحوں کیلیے گھر آکر چالاک باتوں سے بلیک میل کرکے اس کے زیر کفالت یا زیر اثر پورے خاندان کی ووٹ ہڑپ کرلے جائیں
اس خاندان کے نوجوانوں کو یہ لاکھ پتہ ہو کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ضابطہ اخلاق میں یہ طریقہ کار انتخابی بدعنوانی تصور کی جاتی ہے مگر کیا جو شخص خود الیکشن میں امیدوار ہے اسے نہیں پتہ؟
ایک نوجوان کیونکر مسئلہ کشمیر جیسے متنازعہ سوالات نہ سوچھے جب وہ آس پاس کے سب ہی شخصیات بضرورت سیاسی جماعتوں سے ٹکٹ کی خاطر جڑے ہوئے وڈیرے، ملا، میر اور سرداروں کی انتخابی مہم میں الیکشن کمیشن کے مطابق عورتوں کو مساوی مواقع دینا تو دور اب تک اس بات پہ مطمئن نہ ہوں کہ وہ لوگ جن کے گھر کی عورتیں جسے ووٹ دے کر آتی ہیں اُس نمائندے کی اپنے گھر کی عورتیں ووٹ کاسٹ کرنے جاتی ہیں بھی کہ نہیں؟
 کیونکہ وہ اچھے گھروں کی عورتیں تصور کی جاتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں کون عورتیں اچھی ہیں اس کا فیصلہ عورتیں نہیں کرتھیں
عام ووٹر کی ماں بہن تو روز پانی کی تلاش میں گھر گھر مٹکا اٹھائے پرتی ہے

ایک نوجوان اپنے ضمیر کو مار کر بھاری بھرکم اسحلہ سے لیسدار سیکیورٹی اور کالی شیشوں والی ائیرکنڈیشن گاڑی سے اترتے ہوئے اس شخص کو کیسے  اپنا نمائندہ سمجھے جو اپنے ہی جلسے میں آئے ہوئے اپنے ووٹرز سے ڈرتا ہو...
ایک نوجوان کیونکر نفسیاتی بیمار نہ ہو جب وہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کو پڑھ کر آس پاس کے امیدواروں کو اس کے ساتھ بد اخلاقی کرتے ہوئے دیکھے
ایسے معاشرے میں جہاں نوجوان کو طلبہ یونینز اور اسٹیڈی سرکل کی اجازت نہیں مگر نام نہاد طلبہ تنظیم کی اجازت ہو جو کسی سیاسی پارٹی(وہ بھی وزارت کی خاطر) کی چھوٹو گینگ اور مسقبل کے ٹیکہدار ہوں وہ سیاسی سوچھ پیدا کیسے کرینگے؟
اس وقت معاشرے کے نوجوان دو گروپس میں ہیں مگر دونوں بیمار ہیں ایک چمچہ گری کی مرض میں مبتلا ہیں اور دوسری ذہنی دباؤ کی مرض میں
دونوں کو بے صبری سے انتظار ہے الیکشن کا کہ کیسے بھی کرکے یہ ڈرامے ختم ہوں پھر شاید ایک گروپ کو معاوضہ ملے اور دوسرے کو تھوڑی سی ذہنی سکون....

No comments:

Post a Comment

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...