Contact Form

Name

Email *

Message *

Friday 13 September 2019

مت جاؤ، سُنّی سبیل نہیں کھاتے

جاوید بلوچ
کراچی

محرم الحرام کے پہلے عشرے میں جہاں مجالس، ماتمی جلوس اور مختلف طریقوں سے اپنے عقائد کے مطابق ہر طبقے نے اپنے طریقوں سے کربلاء کی سانحہ سے عقیدت کا اظہار کیا، وہیں کچھ بہت ہی خوبصورت مناظر سڑک کنارے مختلف مقامات پر لگائے گئے سبیل کی صورت میں دیکھنے کو ملیں، جہاں گرمی سے تنگ راہ گیر، مزدور ، ڈرائیورز سمیت مختلف لوگ میٹھے مشروبات اور ٹھنڈے پانی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے، یہ سبیل بانٹنے والے یا پانی پلانے والے نا کسی سے انکا نام پوچھتے، نا فرقہ اور نا ہی مذہب، ہر کوئی آتا، پیتا اور چلا جاتا

بلکیں باز مقامات پر اس نیک کام کی وجہ سے ٹریفک کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کوئی بھی ڈرائیور صاحب بریک لگاکر رُکتے اپنی پیاس بجھاتے اور پیچھے گاڑیوں کی قطار لگی رہتی، 

مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جو انسانیت کا منظر یہاں دیکھنے کو مل رہا تھا قابل تعریف ہے مگر یہی شخص، اسی معاشرے میں سال کے باقی تمام دن کسی ہندو یا عیسائی کے گلاس میں پانی پینے کے بعد اس گلاس کو اپنے لیے  ناقابل استعمال کیسے سمجھتی ہے؟

اور ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں جہاں ایک خدا، ایک ہی نبی اور اس کے خاندان اہل بعت پر کسی کو اختلاف نہیں تو اُن کے ماننے والوں کے درمیان اس قدر اختلاف کیسے؟

اس قدر اختلاف کہ بغیر تحقیق کیئے سنے سنائی باتوں پر یقین رکھتے ہیں، کسی کے ایک جملہ کیوں کہنے اور کیوں نہ کہنے پر لڑنے تک آمادہ ہوجاتے ہیں؟ اور اپنے معصوم بچوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں کہ وہ بھی ایسے حرکات کرتے ہیں جنھیں دیکھ کر حیرت ہی نہیں بلکیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ہم یہ کیا سکھا رہے ہیں....

دس محرم الحرام کو ملک کی سب سے بڑی شہر جہاں کی بلند عمارتوں میں تعلیم یافتہ طبقہ رہتی ہے جو پڑھے لکھے بھی ہیں جن کے پانچ سالہ بچے ماں کو ممی اور ابو کو ڈیڈی کہہ کر بلاتے ہیں، وہیں ایک تقریبا ساتھ سالہ بچے کے ہاتھ میں بریانی کی پارسل ہے جسے وہ خوشی خوشی کھا رہا ہے، اچانک وہ اپنے دو اور ہم عمر بچوں کو دیکھ کراپنے ہاتھ کی بریانی دکھا کر زور سے آواز لگاتا ہے،  'بریانی، بریانی' 
دونوں بچے دھوڑ کر آتے ہیں 'کہاں سے ملا؟' خوشی سے پوچھتے ہیں، 
ہاتھ کے اشارے سے 'وہ وہاں سبیل لگی ہے'
ایک بچہ جانا چاہتا ہے کہ دوسرا روک کر کہتا 'مت جاؤ، سنی سبیل نہیں کھاتے'

یہ عمریں اور منظر دیکھ کر مجھے اس بات کی خوشی ہوہی کہ تینوں بچے تھے، وہ دونوں سبیل کو ارمان بھری نگاؤں سے دیکھ تو رہے تھے مگر تربیت نے انھیں کھانے سے منع کیا، کیوں منع کیا، کیوں نہیں کھانا چاہیے جیسے سوالوں سے معصوم ذہن خالی تھے اور بات آگے بڑھنے سے پہلے فوت ہوگئی اور بچے کیھلنے لگے،

مجھے پتہ لگ گیا کہ بریانی کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا، اگر کہا جاتا کہ بریانی تقسیم ہورہی ہے تو بچے شوق سے کھاتے مگر قصور سبیل کا تھا، جو بریانی پر اسٹمپ کی طرح لگا ہوا تھا اور تربیت اسے کھانے سے منع کررہی تھی،

 ایک دوست نے شکایت کی انھیں اپنے دوستوں سے صرف اس وجہ سے گالیاں سنے پڑی کہ انھوں نے عاشورہ کے جلوس کو ریلی کا کہا تھا جوکہ انگریزی کا لفظ تھا، 

ایسے بہت سارے واقعات ہیں جو ہمارے تربیت کا حصہ ہیں مگر ان کی حقیقت کیا ہے؟  اس کی ناں ہم نے کبھی کوشش کی اور نا ہی اسے ضروری سمجھا، اور اس کی ایک بڑی وجہ وہ خوف ہے کہ ہم جب بات کرتے ہیں، وہ گفتگو نہیں بلکیں لڑائی، منہ ماری اور قائل کرنے کا پرزور طریقہ ہوتا ہے، اب اس سے بچنے کا وقتی طریقہ کار یہی ہے کہ جانیے مت، اپنی طرف بنائیے، پھلائیے اور خود کو ایک تصوراتی دنیا میں قید کر لیجیئے جہاں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھانے والے پیچھے نماز گنا ہے،
جہاں مجلس شام غریباں ایک ایسا عمل جسے بیان کرنا شرمندگی ہو،
جہاں جہنم اور جنت کی سرٹیفکٹس عام تقسیم ہوں،

اسی لیئے کسی کے بھی کہنے پر کہیں بھی بھیڑ جمع کرکے کسی کو بھی جہنم واصل کرنے کا اختیار حاصل ہو، اور توہین مذہب کا فتوہ ہر شخص جیب میں لیکر گھومتا پرتا ہو،
تربیت ضروری ہے مگر رواداری کا ، محبت تاکہ معصوم ذہنوں کو اکھٹا رہ کر سیکھنے کا موقع ملے ناکہ تقسیم در تقسیم....

No comments:

Post a Comment

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...