Contact Form

Name

Email *

Message *

Sunday 29 October 2017

میں روزنامہ ہوں پر روزانہ نہیں

میں کون ہوں؟ مجھے کس نے زندگی بخشی اور کیوں بخشی؟ اور میں نے خود کو کتنا جانا؟ کتنا زندہ رکھا اور کتنا زندہ ہوں؟ یہ سوالات میرے موٹے حروف، اُن میں چھپے دعوے اور شہرت کے رنگین (مگر کسی بیوہ کی پوشاک جیسی) الفاظ مجھ سے روز پوچھتے ہیں.
میں مایوس نہیں ہوں بس ذرا سا نفسیاتی ہوگئی ہوں، اب آپ ایک زور دار قہقے کے ساتھ میرے اندر کو جھنجوڑنے کے لیے یہ ضرور پوچھیں گے کہ تم روز آتی کہاں ہو؟
ذرا آہستہ بولو کہیں یوسف عزیز مگسی اور خان صمد خان نہ سن لیں. اگر انھوں نے سن لیا تو وہ کیا سمجھیں گے؟ میں تو کل اپنی پیشمانی پر بروز ہفتہ ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۷ لکھ چکی تھی. اب اگر ان کو پتہ چلا میں روز نہیں آتی تو ارشاد مستوئی سے وہ کیا کیا سوالات نہیں پوچھیں گے. اف میرے خدا! یہ میر عطا محمد مرغزانی تو ۱۹۴۸ کے اپنے "الحق” کے جرمانے ہی پر پشیمان ہوجائیں گے. کتنا سادہ تھا ناں! ایک میری خاطر اسسٹنٹ کمشنری کو چھوڑ کر اپنی زمینیں بیچ دیں اور نواب صاحب کا کیا کہنا اپنی شان، نوابیت اور سرداری کو چھوڑ کر ایک مجھے وادی بولان میں لانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟ آخر رات کے اندھیرے میں خود تو نہ نیند کا سوچا نہ آرام کا. آخرکار تنگ آکر شال کی زمین نے تھک کر ایسی کروٹ بدلی کہ میرے صفحات نے ان کے لیے کفن کا کام کیا اور خان صاحب کو تو مجھ سے ایسا عشق ہوا کہ اپنے گھر کم قید خانہ زیادہ جاتے رہے.
چلیے چھوڑ دیتے ہیں ان باتوں کو آپ بور ہوجائیں گے. مگر کیا واقعی میں روز نہیں آتی؟
نہیں وہ تو ۱۸۸۸ کا بلوچستان ایڈورٹائیزر تھا جو روز نہیں آسکتا تھا مگر کیا کرتا بچارہ منچر جی. انگریز تو فرشتوں کی طرح اس پر نظر رکھے ہوئے تھے. اب نہ انگریز ہیں نا اٹھارہ سو کا وہ دور جہالت. آپ اگر ہنس رہے ہو تو ذرا سا ایک آنکھوں کی قطروں کا دوائی ضرور اپنے ڈاکٹر چشتی مجاہد سے لے لینا تاکہ کچھ آنسو تو دیکھیں نا. مجھے پتہ ہے اصلی آنسو تو لالا حمید اور جمشید علی کھرل والے اپنے ساتھ لے گئے ہیں. نہ آج لوگ اتنے کم ہیں نا کہ استقلال اور الاسلام کا مقابلہ، کوئی اب تو "بول کہ لب آزاد ہیں پیارے” پھر میں کیوں روز نہیں آتی؟
اب تو میرے نام پر روز شاہی ہوٹلوں میں رمضان و بے رمضان کے افطار، ڈنر اور نا جانے کون کون سی پارٹیاں نہیں ہوتیں. کل تو سیلفیاں فیس بک پر اپلوڈ ہورہی تھیں.
مجھے نہیں پتہ میں کہاں لاپتہ ہوں کہ میرا وجود میری گم شدگی کا اعلان کر رہا ہے.نمگر اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں روز آتی کب تھی؟ کبھی کسی نے میرے روز آنے کی خواہش، جھوٹی ہی سہی ظاہر کی ہے؟ نہیں مجھے اور میرے وجود کو تو روز اول سے ہی پابندیوں کا سامنا ہے کبھی آپ سے تو کبھی اس سے.
اب میں کیا سمجھوں آپ نے مجھے روکے رکھا کہ میں آپ کا نہیں. اس نے بھی تو مجھے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے. میں قلم، کیمرہ کے باوجود کبھی خود کا نہ ہوسکا. میرے جسم کو ہمیشہ کسی استعمال کی چیز کی طرح بس اپے
 لیے استعمال کیا گیا میں تو اب بھی بس آتی ہوں، روزنامہ ہوں مگر روزانہ نہیں.
بشکریہ حال احوال

No comments:

Post a Comment

New one

خریدہ فاروقی کے خریدے گئے سوالات

جاوید بلوچ صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک زمہ داری بھی اور ایک کھٹن راستہ بھی ہے جہاں چاپلوسی ءُ طاقت ور کا آشرباد ساتھ ہونا ایک داغ ہوتا ہے او...